انڈیا کے غوطہ خور جو روز دریاؤں میں’خزانہ‘ ڈھونڈتے ہیں

15:4816/07/2025, بدھ
ویب ڈیسک
دریا میں قیمتی چیزیں تلاش کرنے والے غوطہ خور
دریا میں قیمتی چیزیں تلاش کرنے والے غوطہ خور

انڈیاکے دریائے جمنا میں ہر روز سینکڑوں غوطہ خور دریا سے سکے، زیورات اور دیگر قیمتی چیزیں ڈھونڈ کر نکالتے ہیں تاکہ انہیں بیچ کر کچھ پیسے کما سکیں۔

دریاؤں سے ’خزانہ‘ نکالنے والے انڈین غوطہ خوررامو گپتا صبح سویرے اپنے کندھے پر نیلا بیگ لٹکا کر اپنی قسمت کی تلاش میں گھر سے نکلتے ہیں اور انڈیا کے دارالحکومت نئی دہلی میں بہنے والے دریائے جمنا کا رخ کرتے ہیں۔

67 برس کے رامو گپتا ان سیکڑوں غوطہ خوروں میں سے ایک ہیں جو روز دریا سے سکّے، زیورات، پرانی بوتلیں، دھات اور لکڑیاں ڈھونڈ کر نکالتے ہیں تاکہ انہیں کباڑیے کو بیچ کر دو پیسے کما سکیں۔

ان کے بقول "میں مہینے میں اس سے تقریباً پانچ ہزار روپے کما لیتا ہوں۔" رامو گپتا ویسے تو خاکروب کے طور پر کام کرتے ہیں لیکن یہ ان کی اضافی آمدن ہے جسے وہ اپنے پوتوں کے لیے جمع کر رہے ہیں۔ ان کا ارادہ ہے کہ جب ان کے پوتے بڑے ہو جائیں گے تو وہ یہ پیسے ان میں تقسیم کر دیں گے۔

ہندو مذہب میں دریاؤں کو مقدس سمجھا جاتا ہے اور ہندو دریاؤں میں زیورات، سکے، ناریل اور پھول نذرانے کے طور پر ڈالتے ہیں تاکہ "دریا کی دیوی" کو خوش کیا جا سکے جو ان کے عقیدے کے مطابق لوگوں کو زندہ رہنے کے لیے پانی مہیا کرتی ہے۔

دریائے جمنا جو ہمالیہ کے پہاڑوں سے نکلتا ہے، ہندوؤں کے لیے یہ انڈیا میں مقدس ترین دریا ہے۔ ہندو اپنے مردوں کو جلا کر ان کی راکھ اسی دریا میں بہاتے ہیں اور راکھ کے ساتھ ان کی قیمتی چیزیں جیسے زیورات وغیرہ بھی پانی میں ڈال دیے جاتے ہیں۔

رامو گپتا اور ان جیسے سینکڑوں غوطہ خور دریائے جمنا کے آلودہ پانی میں ڈبکیاں لگا کر اس ’خزانے‘ کو تلاش کرتے ہیں اور اس کے لیے اپنی جان خطرے میں ڈالنے سے بھی گریز نہیں کرتے۔

وہ روز صبح اور شام میں دریا پر آتے ہیں اور 35 برس سے اسی معمول کو اپنائے ہوئے ہیں۔

گپتا کی طرح اروند کمار بھی 12 سال سے اسی دریا پر کام کر رہے ہیں۔

29 سالہ اروند کہتے ہیں کہ اس کام میں کوئی لگی بندھی آمدن نہیں ہے۔ وہ روز تقریباً 600 روپے تک کما لیتے ہیں۔ مگر یہ رقم انڈیا میں حکومت کی طرف سے مزدور کی کم سے کم اجرت (710 روپے) سے بھی کم ہے۔

کیوں کہ اکثر ان کے ہاتھ صرف چند سکے، بوتلیں یا پلاسٹک ہی لگتا ہے۔ بہت کم ہی ایسا ہوتا ہے کہ کسی خوش نصیب کو سونے یا چاندی کا کوئی چھوٹا موٹا زیور مل جائے۔

کبھی کبھی انہیں دریا سے لاشیں بھی ملتی ہیں تو وہ پولیس کو بلاتے ہیں۔ کبھی کوئی دریا میں بہہ جائے تو اسے بچانے کی کوشش کرتے ہیں۔

رامو گپتا کے بقول اگر ہم کسی کو بچا لیں تو اس سے زیادہ ہمیں خوشی ہوتی ہے۔ رامو کے مطابق انہیں دریا سے ڈر نہیں لگتا کیوں کہ ایک ہندو کے طور پر انہیں یقین ہے کہ "ماتا رانی" ان کی حفاظت کرے گی۔

"تو پھر ڈر کس بات کا۔ اگر وہ چاہے گی تو میں مر جاؤں گا۔ اگر وہ مجھے زندہ رکھنا چاہے گی تو مجھے بچا لے گی۔"

(یہ تحریر رائٹرز سے لی گئی ہے)
##انڈیا
##دریائے جمنا
##غوطہ خور