
انڈیا نے اعلان کیا ہے کہ وہ 24 جولائی 2025 سے چینی شہریوں کو سیاحتی ویزے (ٹورسٹ ویزا) جاری کرنا دوبارہ شروع کرے گا۔
بیجنگ میں انڈین سفارتخانے نے بدھ کے روز اس بات کی تصدیق کی۔ یہ فیصلہ دونوں ملکوں کے درمیان خراب تعلقات کو بہتر بنانے کی کوششوں کا حصہ ہے۔
پس منظر:
سال 2020 میں ہمالیائی سرحد پر چائنہ اور انڈیا کی افواج کے درمیان جھڑپوں کے بعد دونوں ممالک کے تعلقات خراب ہو گئے تھے۔
اس کے جواب میں انڈیا نے چینی سرمایہ کاری پر پابندیاں لگائیں، سینکڑوں چینی ایپس پر پابندی عائد کی اور مسافروں کی آمد و رفت کو محدود کر دیا۔
دوسری جانب چائنہ نے کووڈ-19 وبا کے دوران انڈین شہریوں اور دیگر غیر ملکیوں کو ویزا دینا بند کر دیا تھا، لیکن 2022 میں یہ پابندیاں ختم کر دیں اور طلبہ اور کاروباری افراد کے لیے دوبارہ ویزے جاری کرنا شروع کر دیے۔
انڈین وزیرخارجہ کی چینی صدر سے ملاقات

گزشتہ ہفتے انڈیا کے وزیرِ خارجہ ایس جے شنکر نے پانچ سال بعد اپنے پہلے دورہ چائنہ میں صدر شی جن پنگ سے ملاقات کی۔ یہ ملاقات ایسے وقت ہوئی جب مشرقی لداخ میں 2020 سے جاری سرحدی کشیدگی کے باعث دونوں ممالک کے تعلقات متاثر ہوئے تھے۔
جے شنکر شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) کے وزرائے خارجہ کے اجلاس میں شرکت کے لیے چائنہ گئے تھے، انہوں نے ملاقات کے دوران صدر شی جن پنگ کو انڈیا کی جانب سے صدر دروپدی مرمو اور وزیرِ اعظم نریندر مودی کے پیغامات پہنچائے اور دو طرفہ تعلقات میں حالیہ پیش رفت سے آگاہ کیا۔
اس کےعلاوہ جے شنکر نے اپنے چینی ہم منصب وانگ یی سے ملاقات میں سرحدی معاملات پر بات کی اور کہا کہ دونوں ممالک کو لائین آف ایکچوئل کنٹرول پر کشیدگی کم کرنے کے لیے آگے بڑھنا چاہیے۔ انہوں نے زور دیا کہ اختلافات کو تنازعات میں نہیں بدلنا چاہیے اور مقابلے کو تصادم نہیں بننے دینا چاہیے۔
ان کا یہ دورہ انڈین وزیرِ دفاع راج ناتھ سنگھ کے جون میں چین کے شہر چنگ ڈاؤ کے دورے کے بعد ہوا جو ایک دہائی میں کسی انڈین وزیرِ دفاع کا پہلا دورہ چائنہ تھا۔
یہ حالیہ ملاقاتیں اور بات چیت اس بات کا امکان بڑھا رہی ہیں کہ وزیرِ اعظم نریندر مودی اس سال کے آخر میں چائنہ جائیں گے تاکہ وہاں ہونے والی ایس سی او (شنگھائی تعاون تنظیم) کی سربراہی کانفرنس میں شرکت کر سکیں۔
سرحدی تنازع:
انڈیا اور چائنہ کے درمیان 3 ہزار 800 کلومیٹر طویل سرحدی تنازع 1950 کی دہائی سے چلا آ رہا ہے۔ 1962 میں دونوں ملکوں کے درمیان ایک مختصر لیکن شدید جنگ بھی ہو چکی ہے۔ اب تک اس تنازع کو حل کرنے کے لیے مذاکرات جاری ہیں، لیکن پیش رفت سست روی کا شکار ہے۔
حال ہی میں انڈیا کے وزیر خارجہ نے کہا کہ اگر تعلقات کو معمول پر لانا ہے تو سرحدی کشیدگی ختم کرنی ہوگی، فوجی دستے پیچھے ہٹانے ہوں گے اور تجارتی رکاوٹیں دور کرنی ہوں گی۔
انڈیا اور چائنہ کے تعلقات میں بہتری
انڈیا نے کچھ عرصے سے احتیاط کے ساتھ چائنہ کے ساتھ تعلقات بحال کرنے کا عمل شروع کیا ہے۔
اکتوبر 2024 میں دونوں ملکوں نے لائن آف ایکچوئل کنٹرول (ایل اے سی) پر گشت کے نئے انتظامات پر اتفاق کیا، جس سے 2020 میں گلوان وادی میں ہونے والے تصادم سے پیدا ہونے والی کشیدگی کم ہوئی۔
جنوری 2025 میں دونوں ملکوں کے درمیان براہِ راست پروازیں دوبارہ شروع ہو گئیں اور انڈین یاتری چھ سال بعد ایک بار پھر مذہبی زیارت کے لیے کیلاش مانسرور جا سکے۔
دوسری جانب چائنہ کی وزارتِ خارجہ کے ترجمان لن جیان نے روس کی ’آر آئی سی‘ (روس، انڈیا، چائنہ) تعاون کی تجویز کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ ’چائنہ-روس-انڈیا تعاون تینوں ممالک کے مفادات کے ساتھ ساتھ خطے اور دنیا میں امن، سلامتی، استحکام اور ترقی کے لیے بھی فائدہ مند ہے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’چائنہ روس اور انڈیا کے ساتھ اس سہ فریقی تعاون کو آگے بڑھانے کے لیے رابطے میں رہنے کے لیے تیار ہے۔‘
آر آئی سی (روس، انڈیا، چائنہ) گروپ 2002 میں بنایا گیا تھا تاکہ دنیا اور خطے کے اہم مسائل پر تینوں ملک آپس میں مشورہ کر سکیں۔ لیکن 2020 میں انڈیا اور چائنہ کے درمیان سرحدی جھگڑے اور کورونا کی وبا کی وجہ سے کام روک دیا گیا تھا۔
اب روس کے وزیر خارجہ سرگئی لاوروف نے کہا ہے کہ چونکہ اب انڈیا اور چائنہ کے تعلقات بہتر ہو رہے ہیں، اس لیے روس چاہتا ہے کہ یہ گروپ دوبارہ فعال ہو جائے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس تعاون سے ایک ’کثیر قطبی دنیا‘ بنائی جا سکتی ہے یعنی ایسی دنیا جہاں صرف امریکہ کی نہیں بلکہ کئی طاقتوں کی بات سنی جائے۔
یعنی وہ ایک ایسا نظام چاہتے ہیں جہاں امریکہ کی اجارہ داری نہ ہو اور باقی ملک بھی عالمی فیصلوں میں برابر کا کردار ادا کر سکیں۔
انڈیا اور چائنہ ایک دوسرے کے قریب کیوں آرہے ہیں؟
انڈیا ٹوڈے کے ایک تجزیے کے مطابق انڈیا اور چائنہ آہستہ آہستہ ایک دوسرے کے قریب آ رہے ہیں اور اس کی وجہ ہے ’حقیقت پسندانہ سوچ‘ ہوسکتی ہے یعنی دونوں ملک موجودہ عالمی حالات کو دیکھ کر عملی فیصلے کر رہے ہیں۔ وہ ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کے راستے تلاش کر رہے ہیں، خاص طور پر ایسے وقت میں جب امریکہ دنیا پر اپنی مرضی کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔
تجزیے میں کہا گیا کہ امریکہ کے صدر ٹرمپ کی غیر یقینی پالیسیاں، جیسے روس سے کاروبار کرنے والے ملکوں پر 500 فیصد ٹیکس لگانے کی بات، نے انڈیا اور چائنہ کو ایک دوسرے کے قریب لانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔
انڈیا کی معیشت کا چائنہ پر بہت انحصار ہے، خاص طور پر الیکٹرانکس، مشینری، کیمیکل ٹیکنالوجی اور ریئر ارتھ معدنیات میں۔ اگرچہ انڈیا نے چینی سرمایہ کاری پر پابندیاں لگائی ہوئی تھیں، لیکن اب کچھ خاص معاملات میں اجازت دی جا رہی ہے۔
چائنہ کے ساتھ انڈیا کا تجارتی خسارہ 85 ارب ڈالر ہے، جو ایک اہم مسئلہ ہے۔
ایک امریکی پروفیسر کرسٹوفر کلاری کے مطابق انڈیا کو توقع تھی کہ امریکہ اس کا قریبی اتحادی بنے گا، لیکن اسے وہ حمایت نہیں ملی جس کی اسے امید تھی خاص طور پر جب مئی میں پاکستان کے ساتھ کشیدگی بڑھی۔
پروفیسر ہیپی مون جیکب لکھتے ہیں کہ اگر انڈیا روس اور چائنہ کے ساتھ چھوٹے اتحادوں سے کچھ خاص حاصل نہ بھی کر سکے، تب بھی اسے ان سے رابطے میں رہنا چاہیے، کیونکہ دنیا میں تنہا رہ جانا، بے مقصد اجلاسوں سے زیادہ نقصان دہ ہو سکتا ہے۔
ادھر انڈین حکومت کی پالیسی ساز تنظیم ’نیتی آیوگ‘ نے چینی سرمایہ کاری کے حوالے سے سخت اصولوں میں نرمی کی تجویز دی ہے کیونکہ اس سے کئی اہم معاہدے تاخیر کا شکار ہو رہے ہیں۔