
مسلمانوں پر چھاپوں کے دوران، انڈیا کی سب سے غریب ریاست بہار میں ووٹر لسٹ کی جانچ ایک بڑا سیاسی مسئلہ بن گئی ہے۔
انڈیا کی ریاست بہار میں حکومت نے ووٹرز سے کہا ہے کہ وہ 25 جولائی تک یہ ثابت کریں کہ وہ انڈیا کے شہری ہیں۔ اگر وہ ایسا نہ کر سکے تو ان کا نام ووٹر لسٹ سے نکالا جا سکتا ہے۔
انڈیا کے الیکشن کمیشن نے جون میں ریاست بہار میں ہونے والے آئندہ انتخابات سے پہلے ووٹر لسٹ کی نظرِثانی کا اعلان کیا تھا۔ کمیشن کا کہنا ہے کہ یہ عمل بعد میں پورے ملک، یعنی 1.4 ارب آبادی، پر بھی نافذ کیا جائے گا۔ انڈیا کے الیکشن کمیشن کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس کا مقصد غیر قانونی غیر ملکیوں کو ووٹر لسٹ سے نکالنا ہے۔
تاہم اس پر ملک بھر میں تنقید ہو رہی ہے کیونکہ بہت سے لوگوں کے پاس شہریت ثابت کرنے کے لیے ضروری کاغذات نہیں ہیں۔
ناقدین کو خدشہ ہے کہ اگر ووٹرز سے شہریت کے کاغذات مانگے گئے تو لاکھوں لوگوں کے نام ووٹر لسٹ سے نکالے جا سکتے ہیں۔ مسلم رہنما اسدالدین اویسی نے کہا کہ ’ایسے کاغذات مانگے جا رہے ہیں جو زیادہ تر لوگوں کے پاس نہیں ہوتے۔‘ انہوں نے خبردار کیا کہ اس سے بہت سے لوگ ووٹ ڈالنے کے حق سے محروم ہو سکتے ہیں۔
اپوزیشن جماعتوں کا کہنا ہے کہ اس فیصلے سے خاص طور پر مسلمانوں اور دلت برادری متاثر ہوں گے۔ راشٹریہ جنتا دل اور کچھ دوسری جماعتوں نے سپریم کورٹ میں درخواست دی ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ الیکشن کمیشن جان بوجھ کر اقلیتوں اور غریب لوگوں کو ووٹر لسٹ سے نکالنا چاہتا ہے۔
شہریت ثابت کرنے کے لیے کونسی دستاویزات دینی ہوں گی؟
بہار میں تمام ممکنہ ووٹرز کو 25 جولائی تک اپنی شہریت کا ثبوت دینا ہوگا۔جن لوگوں کا نام 2003 میں ووٹر لسٹ میں شامل تھا (جب آخری بار ایسی جانچ ہوئی تھی)، وہ اُس وقت کا ریکارڈ دکھا سکتے ہیں۔
لیکن باقی تقریباً 3 کروڑ افراد کو اپنی پیدائش کی تاریخ اور جگہ کے ثبوت دینے ہوں گے اور جن کی پیدائش 1987 کے بعد ہوئی ہے، انہیں اپنے والدین کی انڈین شہریت کا ثبوت بھی دینا ہوگا۔
بہار انڈیا کی تیسری سب سے زیادہ آبادی والی ریاست اور سب سے غریب ریاست بھی ہے۔
یہ ریاست ایک اہم انتخابی میدان بھی ہے، کیونکہ یہ واحد ہندی بولنے والی ریاست ہے جہاں مودی کی بی جے پی نے کبھی تنہا حکومت نہیں کی، صرف اتحاد میں اقتدار میں رہی ہے۔
انڈیا میں عام طور پر استعمال ہونے والا آدھار کارڈ، جو بایومیٹرک ڈیٹا سے منسلک ہے، الیکشن کمیشن کی جانب سے شہریت ثابت کرنے کے لیے قابل قبول نہیں۔ صرف پیدائشی سرٹیفکیٹ، پاسپورٹ یا میٹرک کا سرٹیفکیٹ ہی قبول کیے جا رہے ہیں۔
ان میں سے زیادہ تر لوگ میٹرک کا سرٹیفکیٹ دکھانے پر مجبور ہوں گے، لیکن یہ بھی بہار جیسے کم تعلیمی شرح والے علاقوں میں عام نہیں ہے۔
انڈین ایکسپریس کی تحقیق کے مطابق بہار میں صرف 35 فیصد افراد کے پاس میٹرک کا سرٹیفکیٹ ہے۔
نئی دہلی کے ادارے ایسوسی ایشن فار ڈیموکریٹک ریفارمز کے جگدیپ چھوکر نے کہا کہ ’بہار میں جہاں تعلیم کی شرح کم ہے، وہاں زیادہ تر لوگوں کے پاس وہ دستاویزات موجود نہیں ہوں گی جن کا مطالبہ الیکشن کمیشن کر رہا ہے۔‘
انہوں نے خبردار کیا کہ ’یہ فیصلہ سب سے زیادہ غریب، کم تعلیم یافتہ اور اقلیتوں کو متاثر کرے گا۔‘
’یہ طریقہ صرف بہار میں نہیں بلکہ پورے انڈیا میں نافذ ہوسکتا ہے‘
ناقدین کہتے ہیں کہ بہار میں ووٹر لسٹ کو دوبارہ چیک کرنا دراصل شہریت چیک کرنے کا ایک خفیہ طریقہ ہے، جو 2019 میں آسام میں کیے گئے این آر سی (نیشنل رجسٹر آف سٹیزنز) جیسا ہے۔ اُس وقت تقریباً 20 لاکھ لوگوں کو فہرست سے نکال دیا گیا تھا، جن میں زیادہ تر مسلمان تھے۔سیاسی تجزیہ کار یوگندر یادو نے کہا کہ انڈیا میں ووٹر پر کبھی یہ ذمہ داری نہیں تھی کہ وہ اپنی شہریت ثابت کرے، یہ کام الیکشن کمیشن کے حکام کا ہوتا تھا۔‘
مگر نئے اصولوں کے تحت ووٹر رجسٹریشن کو صرف اپ ڈیٹ کرنے کے بجائے مکمل طور پر دوبارہ بنایا جا رہا ہے۔
سپریم کورٹ میں دائر درخواست میں الزام لگایا گیا ہے کہ الیکشن کمیشن مردم شماری کو بہانہ بنا کر ووٹر لسٹ کو غیر منصفانہ اور سخت طریقے سے تبدیل کر رہا ہے، جس سے غریب اور پسماندہ لوگ متاثر ہوں گے۔
الیکشن کمیشن اس طریقے کو صرف بہار تک محدود نہیں رکھنا چاہتا، بلکہ پورے انڈیا میں نافذ کرنے کا ارادہ رکھتا ہے، جس سے 1.4 ارب لوگ آئندہ انتخابات سے پہلے متاثر ہوسکتے ہیں۔