
گرفتار کیے گئے افراد کا تعلق تحریکِ طالبان پاکستان سے ہے، جس نے اس بم دھماکے کی ذمہ داری قبول کی تھی: حکام
پاکستان کے حکام نے اسلام آباد کچہری میں رواں ہفتے ہونے والے خودکش دھماکے میں مبینہ طور پر ملوث ایک افغان سیل کے چار ارکان کو گرفتار کر لیا ہے۔
الجزیرہ کے مطابق منگل کو ضلعی عدالت کے باہر ہونے والے اس حملے کی ذمہ داری پاکستانی طالبان کے ایک دھڑے، یعنی تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی)، نے قبول کی تھی لیکن کچھ مقامی صحافیوں کے مطابق ٹی ٹی پی نے اس معاملے سے لاتعلقی ظاہر کی ہے۔
اس دھماکے میں 12 افراد ہلاک اور درجنوں زخمی ہوئے تھے۔پاکستانی حکام کے مطابق دھماکے میں مبینہ طور پر ملوث گرفتار ملزمان کا تعلق بھی ٹی ٹی پی سے تھا۔
’’اس نیٹ ورک کو ہر قدم پر افغانستان میں موجود … اعلیٰ قیادت کی جانب سے کنٹرول اور رہنمائی فراہم کی جا رہی تھی،‘‘
پاکستان کی حکومت نے جمعے کے روز ایک بیان میں کہا کہ ’اس نیٹ ورک کو افغانستان میں موجود اعلیٰ قیادت سے رہنمائی فراہم کی جارہی تھی‘۔ اس افغان سیل کے مبینہ سربراہ سمیت اس کے تین ارکان حراست میں ہیں۔
بیان میں مزید کہا گیا کہ ’تحقیقات جاری ہیں، اور مزید انکشافات اور گرفتاریاں متوقع ہیں۔ مبینہ بمبار کی شناخت عثمان عرف قاری کے طور پر کی گئی ہے، جو مشرقی افغانستان کے صوبہ ننگرہار کا رہائشی تھا۔‘
وزیر داخلہ محسن نقوی نے جمعرات کو سینیٹ کو بتایا تھا خودکش بمبار افغان شہری تھا۔
گرفتار ملزمان میں سے ایک کا نام ساجد اللہ ہے۔ انہوں نے تفتیش کاروں کو بتایا کہ پاکستان طالبان کے کمانڈر سعید الرحمٰن نے ٹیلیگرام میسجنگ ایپ کے ذریعے اسلام آباد میں حملے کا حکم دیا تھا۔
پاکستانی حکومت کے مطابق اس کمانڈر (جو داداللہ کے نام سے بھی جانا جاتا ہے) نے ساجد اللہ کو خودکش حملہ آور کی تصاویر بھیجیں، جو ایک افغان شہری تھا اور اسے ہدایت دی کہ وہ پاکستان میں داخل ہونے کے بعد اسے ریسیو کرے۔ حملہ آور افغانستان کے صوبہ ننگرہار کا رہائشی تھا۔
بیان میں دعویٰ کیا گیا کہ ’داداللہ، جو اصل میں پاکستان کے باجوڑ علاقے سے تعلق رکھتا ہے، پاکستان طالبان کے انٹیلیجنس ونگ کا حصہ ہے اور اس وقت افغانستان میں روپوش ہے۔‘
حکومت نے بتایا کہ ان افراد کو ملک کے انٹیلیجنس بیورو اور کاؤنٹر ٹیررازم ڈیپارٹمنٹ کی مشترکہ کارروائی میں گرفتار کیا گیا، تاہم یہ نہیں بتایا گیا کہ گرفتاریاں کہاں سے کی گئیں۔
گزشتہ چند سالوں میں اسلام آباد زیادہ تر مسلح گروہوں کی پرتشدد کارروائیوں سے محفوظ رہا ہے اور آخری خودکش حملہ دسمبر 2022 میں ہوا تھا۔
لیکن ملک میں دوبارہ ان واقعات میں اضافہ دیکھا جا رہا ہے، جسے حکام بنیادی طور پر ان مسلح گروہوں سے جوڑتے ہیں جو مبینہ طور پر افغان سرزمین پر پناہ لیے ہوئے ہیں۔
محسن نقوی نے پیر کو دعویٰ کیا کہ اس ہفتے شمال مغربی پاکستان میں کیڈیٹ کالج وانا (جو فوج سے منسلک ایک تعلیمی ادارہ ہے) پر ہونے والے حملے میں بھی افغان شہری ملوث تھے۔ مسلح افراد نے کالج پر دھاوا بولا اور پاکستانی آرمی کے فوجیوں نے تقریباً 20 گھنٹے تک مسلح افراد کے خلاف آپریشن کیا۔ اس میں تین فوجی اور تمام حملہ آور مارے گئے۔
طالبان حکومت نے پاکستان کے الزامات پر کوئی تبصرہ نہیں کیا، البتہ دونوں حملوں پر ’گہرے دکھ اور مذمت‘ کا اظہار کیا ہے۔
ٹی ٹی پی کے نمائندوں نے بھی گرفتاریاں پر کوئی ردعمل نہیں دیا۔
یہ الزامات ایسے وقت میں سامنے آئے ہیں جب اسلام آباد اور کابل کے تعلقات میں شدید تناؤ ہے اور حالیہ حملوں کے بعد گزشتہ ماہ دونوں ممالک کے درمیان کئی برسوں میں بدترین سرحدی جھڑپیں ہوئیں۔
اقوام متحدہ کے مطابق ان جھڑپوں میں 70 سے زائد افراد ہلاک ہوئے، جن میں درجنوں افغان شہری بھی شامل تھے۔
دونوں ممالک نے ایک نازک جنگ بندی پر تو اتفاق کیا تھا لیکن کئی دور کی مذاکرات کے باوجود اس کی تفصیلات طے نہیں ہو سکیں۔ دونوں فریق نے جنگ بندی میں تعطل کا ذمہ دار ایک دوسرے کو ٹھہرایا ہے۔
اس ہفتے اسلام آباد میں ہونے والے حملے دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگی میں اضافہ کرسکتے ہیں۔
بدھ کو پارلیمنٹ سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم شہباز شریف نے اسلام آباد دھماکے کو ’وحشیانہ دہشت گردی‘ قرار دیا۔
انہوں نے کہا تھا کہ ’ہم امن چاہتے ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ افغانستان امن میں ہمارا شریک بنے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ جو پاکستان کے لیے بہتر ہے، وہ انہی کے لیے بھی بہتر ہے۔ لیکن ہم جھوٹ پر یقین نہیں کر سکتے اور نہ ہی دہشت گردوں کو کھلے عام چھوڑ سکتے ہیں۔‘






