
اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل نے پیر کے روز امریکہ کے تیار کردہ اُس قرارداد کی منظوری دے دی جس میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے غزہ میں جنگ ختم کرنے کے منصوبے اور فلسطینی علاقے میں ایک انٹرنیشنل فورس تعینات کرنے کی بات کی تھی۔
پچھلے مہینے اسرائیل اور فلسطینی گروپ حماس نے ٹرمپ کے 20 نکاتی غزہ منصوبے کے پہلے مرحلے (دو سالہ جنگ میں جنگ بندی اور یرغمالیوں کی رہائی کے معاہدے) پر اتفاق کیا تھا، لیکن اقوامِ متحدہ کی یہ نئی قرارداد اس لیے اہم ہے کہ یہ غزہ کے لیے بننے والے عبوری (عارضی) حکومتی سیٹ اپ کو قانونی حیثیت دے گی اور اُن ممالک کو اعتماد دے گی جو غزہ میں امن قائم کرنے کے لیے اپنی فوج بھیجنے پر غور کر رہے ہیں۔
قرارداد میں کیا کہا گیا ہے؟
اقوامِ متحدہ کی قرارداد کے مطابق، ایک بین الاقوامی سکیورٹی فورس غزہ کی سرحدوں پر سکیورٹی سنبھالنے میں اسرائیل، مصر اور تربیت یافتہ فلسطینی پولیس کی مدد کرے گی۔ اس فورس کا مقصد حماس سمیت تمام مسلح گروہوں کو غیر مسلح کرنا ہے۔
سلامتی کونسل نے غزہ میں ’بورڈ آف پیس‘ کے نام سے ایک عبوری حکومت بنانے کی منظوری بھی دی ہے۔ یہ عبوری حکومت ایک غیر سیاسی فلسطینی کمیٹی کی نگرانی کرے گی اور غزہ کی تعمیرِ نو اور انسانی امداد کے عمل کو دیکھے گی۔
دو سالہ جنگ کے بعد غزہ کی دوبارہ تعمیر کے لیے مالی مدد، عالمی بینک کے تعاون سے بننے والے ایک ٹرسٹ فنڈ سے فراہم کی جائے گی۔
قرارداد میں کہا گیا ہے کہ بین الاقوامی فورس، بورڈ آف پیس، فلسطینی کمیٹی اور پولیس فورس مل کر کام کریں گے۔
غزہ میں امن کے لیے جتنے بھی دوسرے منصوبے یا تجاویز سامنے آئی تھیں، اُن کے مقابلے میں اس اقوامِ متحدہ کی قرارداد میں پہلی بار صاف طور پر یہ بات کہی گئی ہے کہ فلسطینیوں کو اپنی ریاست بنانے کا حق اور خود مختاری ملنی چاہیے۔ جس کی اسرائیل پہلے سے مخالفت کرتا آیا ہے۔
حماس کا مؤقف:
حماس نے اپنے بیان میں دوبارہ کہا ہے کہ وہ اپنے ہتھیار نہیں ڈالے گی اور اسرائیل کے خلاف اپنی لڑائی کو جائز مزاحمت قرار دیا ہے۔ اس مؤقف کی وجہ سے حماس اورانٹرنیشنل فورس کے درمیان کشیدگی کا امکان پیدا ہو سکتا ہے۔
حماس نے قرارداد کی منظوری کے بعد جاری کیے گئے اپنے بیان میں کہا کہ اس قرارداد کا مقصد غزہ پر بین الاقوامی کنٹرول مسلط کرنا ہے۔ غزہ کے لوگ ایسی سرپرستی قبول نہیں کریں گے۔
روس، جو سلامتی کونسل میں ویٹو پاور رکھتا ہے، پہلے اس قرارداد کی مخالفت کا اشارہ دے رہا تھا لیکن ووٹنگ کے وقت اس نے ووٹ نہیں ڈالا جس سے قرارداد منظور ہو گئی۔
روس اور چائنہ کے اقوامِ متحدہ میں سفیروں نے شکایت کی کہ اس قرارداد میں غزہ کے مستقبل میں اقوامِ متحدہ کے کردار کو واضح طور پر نہیں بتایا گیا، اسی لیے انہوں نے بھی ووٹ نہیں دیا۔
دوسری جانب فلسطینی اتھارٹی نے اس قرارداد کا خیرمقدم کیا ہے اور کہا ہے کہ وہ اس پر عمل کرنے کے لیے تیار ہے۔ سفارتکاروں کے مطابق فلسطینی اتھارٹی کی حمایت نے روس کو قرارداد پر ویٹو کرنے سے روکنے میں اہم کردار ادا کیا۔
ٹرمپ نے اقوام متحدہ میں قرارداد کی منظوری کو سوشل میڈیا پر ایک تاریخی لمحہ قرار دیتے ہوئے خوشی کا اظہار کیا۔ انہوں نے کہا کہ ممبرز آف بورڈ سمیت کئی اہم اعلانات آنے والے ہفتوں میں کیے جائیں گے۔
قرارداد پر اسرائیل میں تنقید
اس قرارداد پر اسرائیل میں تنقید ہو رہی ہے کیونکہ اس میں مستقبل میں فلسطینیوں کے لیے ریاست بنانے کے امکان کا حوالہ دیا گیا ہے۔
قرارداد کے متن میں کہا گیا ہے کہ اگر فلسطینی اتھارٹی اصلاحات مکمل کر لے اور غزہ کی تعمیرِ نو میں پیشرفت ہو جائے، تو پہلی بار فلسطینی خودارادیت اور ریاست کے لیے ایک قابلِ اعتماد راستہ بن سکتا ہے۔
اس میں یہ بھی لکھا ہے کہ امریکہ اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان بات چیت کا آغاز کریں گے تاکہ ایک ایسا سیاسی راستہ نکالا جا سکے جس سے دونوں قومیں امن اور خوشحالی کے ساتھ رہ سکیں۔
اسرائیلی وزیرِ اعظم بنیامین نیتن یاہو نے اتوار کو کہا کہ اسرائیل اب بھی فلسطینی ریاست کا مخالف ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ اسرائیل غزہ کو غیر مسلح کرےگا چاہے اس لیے آسان طریقہ یا مشکل طریقہ اپنایا جائے۔






