نئی دہلی دھماکے کی تحقیقات انسدادِ دہشت گردی قانون کے تحت جاری، ہریانہ پولیس کا 360 کلو دھماکہ خیز مواد برآمد کرنے کا دعویٰ

10:1111/11/2025, منگل
جنرل11/11/2025, منگل
ویب ڈیسک
دھماکے کے مقام پر پولیس کی بھاری نفری تعینات ہے۔
دھماکے کے مقام پر پولیس کی بھاری نفری تعینات ہے۔

انڈیا کے دارالحکومت نئی دہلی میں پیر کی شام ہونے والے دھماکے میں ہلاکتوں کی تعداد آٹھ ہو گئی ہے جب کہ پولیس اس واقعے کی تحقیقات انسدادِ دہشت گردی کے قانون کے تحت کر رہی ہے۔

انڈیا کے دارالحکومت نئی دہلی میں پیر کی شام ہونے والے دھماکے میں ہلاکتوں کی تعداد آٹھ ہو گئی ہے جب کہ پولیس اس واقعے کی تحقیقات انسدادِ دہشت گردی کے قانون کے تحت کر رہی ہے۔ دہلی پولیس کو شبہ ہے کہ دھماکہ خودکش ہو سکتا ہے تاہم اس بارے میں ابھی کوئی ٹھوس شواہد سامنے نہیں آئے ہیں۔

نئی دہلی میں ہونے والا یہ دھماکہ تقریباً ایک دہائی میں ہونے والا اس طرز کا پہلا واقعہ تھا۔ جائے واقعہ سے فرانزک ماہرین نے شواہد اکٹھے کر لیے ہیں اور واقعے کی تحقیقات کی جا رہی ہیں۔

خبر رساں ادارے 'رائٹرز' کے مطابق پولیس کے ڈپٹی کمشنر راجہ بنٹھیا نے کہا ہے کہ دہلی پولیس نے واقعے کا مقدمہ انسدادِ دہشت گردی، ایکسپلوزیو ایکٹ اور دیگر کرمنل قوانین کے تحت درج کیا ہے۔ تحقیقات ابھی ابتدائی مراحل میں ہیں اس لیے ابھی کوئی بھی تبصرہ کرنا قبل از وقت ہوگا۔

ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ دھماکے کے مقام سے کوئی شارپنل نہیں ملا ہے۔ ان کے بقول فرانزک ٹیم نے شواہد اکٹھے کیے ہیں اور ان کا جائزہ لے کر دو دن میں حتمی رپورٹ پیش کی جائے گی۔

تاہم انڈیا کی سرکاری نیوز ایجنسی 'اے این آئی' نے دہلی پولیس کے ذرائع کے حوالے سے رپورٹ کیا ہے کہ ابتدائی تحقیقات یہ بتاتی ہیں کہ دھماکہ خودکش حملہ ہو سکتا ہے۔ انڈیا کے وزیرِ داخلہ امیت شاہ کے مطابق واقعے کی تمام پہلوؤں سے تحقیقات کی جا رہی ہیں۔

دھماکہ کیسے ہوا؟

دھماکہ نئی دہلی کے تاریخی لال قلعے کے قریب ایک کار میں شام سات بجے کے قریب ہوا۔ پولیس کے مطابق کار سست رفتاری سے چل رہی تھی اور جیسے ہی وہ ایک سگنل پر رکی تو کچھ لمحوں بعد دھماکہ ہو گیا جس سے کئی قریبی گاڑیاں بھی تباہ ہوئیں۔ دھماکے میں اب تک کم از کم آٹھ افراد کی ہلاکت کی تصدیق ہو چکی ہے جب کہ 20 افراد زخمی ہیں۔

جس مقام پر دھماکہ ہوا وہ ایک مصروف علاقہ ہے جہاں میٹرو اسٹیشن، بازار اور سیاحتی مقام ہے۔

کار میں سوار افراد کے بارے میں معلومات فی الحال دستیاب نہیں ہو سکی ہیں جب کہ پولیس کار کے مالک کو بھی تلاش کر رہی ہے۔

واضح رہے کہ یہ دھماکہ ایسے موقع پر ہوا ہے جب انڈیا کی ریاست بہار میں انتخابات جاری ہیں۔

'ذمے داروں کو انصاف کے کٹہرے میں لائیں گے'

انڈیا کے وزیرِ دفاع راج ناتھ سنگھ نے کہا ہے کہ ملک کی اعلیٰ تحقیقاتی ایجنسیاں واقعے کی تحقیقات کر رہی ہیں جن میں سامنے آںے والی معلومات جلد عوام کے سامنے رکھی جائیں گی۔

ان کا کہنا تھا کہ جو بھی اس واقعے کے ذمے دار ہیں انہیں انصاف کے کٹہرے میں لائیں گے اور کسی صورت نہیں بخشیں گے۔

بھاری مقدار میں دھماکہ خیز مواد برآمد کرنے کا دعویٰ، امام مسجد بھی گرفتار

اسی دوران انڈیا کی ریاست ہریانہ کی پولیس نے دعویٰ کیا ہے کہ فرید آباد ضلعے میں ایک آپریشن کے دوران کرائے کے مکان سے بھاری مقدار میں دھماکہ خیز مواد اور ہتھیار برآمد ہوئے ہیں۔

پولیس کے مطابق ہریانہ اور انڈیا کے زیرِ انتظام جموں و کشمیر کی پولیس گزشتہ 15 روز سے ایک مشترکہ آپریشن کر رہی ہے جس کے دوران ایک مکان پر چھاپے میں یہ برآمدگی ہوئی۔ ہریانہ پولیس کے مطابق ان میں کئی اشیا ایسی ہیں جنہیں آئی ای ڈیز بنانے میں استعمال کیا جا سکتا تھا۔

فریدآباد کے پولیس کمشنر ستیندر کمار نے میڈیا کو بتایا کہ ہتھیاروں میں ایک رائفل، ایک پستول، میگزین اور درجنوں گولیاں برآمد ہوئیں جب کہ تقریباً 360 کلو گرام آتش گیر مواد برآمد ہوا ہے جس کے بارے میں شبہ ہے کہ امونیم نائٹریٹ ہو سکتا ہے۔

پولیس کمشنر کا کہنا ہے کہ مزمل نامی ایک شخص کو بھی موقع سے گرفتار کیا گیا ہے۔ ان کے مطابق ملزم الفلاح نامی یونیورسٹی میں ملازم تھا۔ اس کے علاوہ پولیس نے ایک مقامی مسجد کے امام کو بھی گرفتار کیا ہے۔


##انڈیا
##نئی دہلی دھماکہ
##لال قلعہ