امریکی حکومت کو علم تھا کہ اسرائیلی فوجی فلسطینیوں کو انسانی ڈھال کے طور پر استعمال کر رہے ہیں: دو اعلیٰ عہدے داروں کا انکشاف

10:3313/11/2025, جمعرات
جنرل13/11/2025, جمعرات
ویب ڈیسک
فائل فوٹو
فائل فوٹو

امریکہ کے دو سابق اعلیٰ عہدے داروں نے انکشاف کیا ہے کہ پچھلے سال امریکہ کی انٹیلی جینس رپورٹس میں اسرائیل کی جانب سے فلسطینیوں کو انسانی ڈھال کے طور پر استعمال کرنے کا معاملہ سامنے آیا تھا کہ اسرائیلی فوجیوں نے غزہ میں فلسطینیوں کو ان سرنگوں میں بھیجا جن میں دھماکہ خیز مواد نصب ہونے کا اندیشہ تھا۔

خبر رساں ادارے 'رائٹرز' کے مطابق معاملے سے آگاہ عہدے داروں نے بتایا کہ یہ انٹیلی جینس معلومات سابق امریکی صدر جو بائیڈن کی انتظامیہ اور وائٹ ہاؤس کو بھی بھجوائی گئی تھیں۔ ان سابق عہدے داروں نے معاملے کی حساسیت اور قومی سلامتی کے مسئلے کی وجہ سے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر رائٹرز سے بات کی ہے۔

جو بائیڈن کی حکومت کے اعلیٰ عہدے دار اسرائیلی فوجیوں کی جانب سے فلسطینیوں کو بطور ڈھال استعمال کرنے کی خبروں پر تشویش کا اظہار کرتے رہے ہیں۔ تاہم امریکہ کے پاس اس کے شواہد موجود ہونے کی خبر پہلی بار سامنے آئی ہے۔

واضح رہے کہ بین الاقوامی قانون کے تحت فوجی کارروائیوں میں شہریوں کو انسانی ڈھال کے طور پر استعمال کرنا ممنوع ہے۔

'وائٹ ہاؤس میں بھی سوالات اٹھائے گئے'

امریکی عہدے داروں کے مطابق 2024 کے آخری مہینوں کے دوران جب امریکی انٹیلی جینس رپورٹ پیش کی گئی تو وائٹ ہاؤس میں بھی سوالات اٹھائے گئے کہ یہ عمل کتنے بڑے پیمانے پر ہو رہا ہے اور کیا اسرائیلی فوجی اپنے اعلیٰ افسران کی ہدایت پر ایسا کر رہے ہیں۔

البتہ عہدے داروں نے یہ نہیں بتایا کہ انٹیلی جینس رپورٹ میں جن فلسطینیوں کو استعمال کرنے کا حوالہ دیا گیا وہ عام شہری تھے یا اسرائیل کی قید میں موجود فلسطینی قیدی۔

رائٹرز کے مطابق یہ واضح نہیں کہ آیا بائیڈن انتظامیہ نے یہ معلومات اسرائیلی حکومت کے ساتھ شیئر کی تھیں یا نہیں۔ اسرائیلی حکومت نے بھی ان سوالوں کا کوئی جواب نہیں دیا کہ کیا انہوں نے یا امریکہ کے ان کے ساتھ ایسی کوئی انٹیلی جینس معلومات شیئر کی تھیں یا نہیں۔

رائٹرز کے مطابق وائٹ ہاؤس کے سابق حکام نے رابطہ کرنے پر کوئی جواب نہیں دیا جب کہ امریکی انٹیلی جینس ایجنسی سی آئی اے نے بھی کوئی جواب نہیں دیا ہے۔

اسرائیلی فوج نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ وہ شہریوں کو انسانی ڈھال کے طور پر استعمال کرنے یا انہیں کسی فوجی آپریشن میں شامل ہونے پر مجبور کرنے کی ممانعت کرتے ہیں۔ ملٹری پولیس کا کرمنل انویسٹی گیشن کا محکمہ فوجی آپریشنز میں فلسطینیوں کی مشتبہ شمولیت کی تحقیقات کر رہا ہے۔

یاد رہے کہ اسرائیل حماس پر الزام لگاتا ہے کہ وہ شہریوں کو انسانی ڈھال کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ اسرائیل بارہا یہ الزامات لگا کر اسپتالوں پر بھی حملے کر چکا ہے کہ حماس شہری انفراسٹکچر کو عسکری مقاصد کے لیے استعمال کر رہی ہے جب کہ حماس ان الزامات کی تردید کرتی آئی ہے۔

کیا امریکہ بھی اسرائیل کے ساتھ شامل تھا؟

یہ انٹیلی جنس معلومات کہ اسرائیلی ڈیفنس فورسز عام شہریوں کو انسانی ڈھال کے طور پر استعمال کر رہی ہیں، امریکہ کے حکومتی حلقوں میں اس وقت گردش میں آئیں جب بائیڈن حکومت کی مدت ختم ہونے والی تھی۔

گزشتہ ہفتے رائٹرز نے رپورٹ کیا تھا کہ اسی عرصے کے دوران بائیڈن انتظامیہ کو یہ انٹیلی جنس بھی ملی تھی کہ اسرائیلی وکلا نے خبردار کیا تھا کہ غزہ میں فوجی کارروائیوں کے دوران اسرائیل کے خلاف جنگی جرائم کے الزامات کے شواہد موجود ہیں۔ اسرائیلی حکومت نے اس رپورٹ پر کوئی تبصرہ نہیں کیا۔

سابق امریکی حکام کے مطابق اسرائیل کے اندر سے آنے والی اس نئی انٹیلی جنس نے واشنگٹن میں تشویش پیدا کر دی تھی۔ خاص طور پر ان اعلیٰ حکام میں جو سمجھتے تھے کہ یہ معلومات ان الزامات کو تقویت دیتی ہیں کہ اسرائیل واقعی جنگی جرائم کا مرتکب ہو رہا ہے۔ اگر اسرائیل جنگی جرائم کا مجرم ٹھہرتا، تو امریکا کو بھی اس کا شریکِ جرم سمجھا جا سکتا تھا کیوں کہ وہ اسرائیل کو ہتھیار فراہم کر رہا ہے۔ اس صورت میں واشنگٹن کو اسرائیل کے ساتھ انٹیلی جنس معلومات شیئر کرنا بھی روکنا پڑ سکتا تھا۔

تاہم بائیڈن انتظامیہ کے آخری ہفتوں میں مختلف اداروں میں امریکی سرکاری وکلا نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ دستیاب شواہد اسرائیل کے خلاف جنگی جرائم کے الزامات کو ثابت نہیں کرتے۔ لہٰذا امریکہ اسرائیل کو ہتھیار اور انٹیلی جنس فراہم کرنے کا عمل جاری رکھ سکتا ہے۔

کچھ سابق امریکی اہلکاروں کا کہنا تھا کہ بائیڈن انتظامیہ کو موصول ہونے والی انٹیلی جنس میں صرف چند انفرادی واقعات کی نشان دہی کی گئی تھی نہ کہ اسرائیلی پالیسی یا طریقہ کار کی۔

##امریکہ
##انٹیلی جینس
##اسرائیل
##فلسطینی