
بنگلہ دیش کے بانی شیخ مجیب کی بیٹی اور ملک کی سابق وزیرِ اعظم شیخ حسینہ کو انسانیت کے خلاف جرائم میں سزائے موت انہی کی قائم کردہ ایک عدالت نے سنائی ہے۔
شیخ حسینہ کو بنگلہ دیش کے انٹرنیشنل کرائمز ٹریبیونل نے موت کی سزا سنائی ہے۔ یہ ٹریبیونل شیخ حسینہ کی حکومت نے ہی 2009 میں قائم کیا تھا۔
شیخ حسینہ کی عوامی لیگ نے یہ عدالت 1971 میں بنگلہ دیش کی آزادی کی جنگ کے دوران ہونے والے جرائم میں مرتکب افراد کو سزائیں دینے کے لیے بنائی تھی۔
لیکن یہ ٹریبیونل متنازع ہو گیا اور اسے ملک کا سب سے زیادہ سیاسی منقسم ادارہ سمجھا جاتا تھا۔ اس ٹریبیونل نے کئی اہم اپوزیشن رہنماؤں کو سزائے موت سنائی جن میں سے زیادہ تر جماعتِ اسلامی اور بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی سے تعلق رکھتے تھے۔
جماعتِ اسلامی پر یہ الزام لگتا رہا ہے کہ اس نے بنگلہ دیش کی آزادی کی جنگ کے دوران البدر اور الشمس نامی عسکری تنظیمیں بنائی تھیں جنہوں نے لوگوں پر ظلم و ستم کیے اور جنگی جرائم میں ملوث رہیں۔ تاہم جماعتِ اسلامی ان الزامات کی تردید کرتی رہی ہے۔
ملک کے کئی بڑے سیاست دانوں کو سزائے موت دینے کی وجہ سے اس ٹریبیونل پر عالمی تنقید بھی ہوئی اور اس کے طریقۂ کار میں غلطیوں کی نشان دہی بھی کی گئی کہ کیسے یہ عدالت جلد بازی میں ٹرائل کر رہی ہے اور مخصوص حلقوں کو ٹارگٹ کر رہی ہے۔ تاہم شیخ حسینہ کی حکومت ہمیشہ ان الزامات کی تردید کرتی رہی۔
تمام تر تنازعات کے باوجود یہ ٹریبیونل شیخ حسینہ کا سب سے طاقت ور عدالتی ہتھیار ثابت ہوا اور وہ اپنے اقتدار کے دوران قائم کردہ اس عدالت کا پوری شد و مد سے دفاع کرتی رہیں۔
اگست 2024 میں جب طلبہ کے مظاہروں کے بعد جب شیخ حسینہ مستعفی ہو کر انڈیا فرار ہو گئیں تو بنگلہ دیش میں آنے والی نئی عبوری حکومت نے اس ٹریبیونل کی تشکیلِ نو کی۔
شیخ حسینہ کی حکومت پر مظاہرین کے خلاف طاقت کے استعمال اور سینکڑوں افراد کی ہلاکت کے جو الزامات لگ رہے تھے، ان کی تحقیقات کی ذمے داری اسی ٹریبیونل کو دی گئی۔
منظر نامہ کچھ ایسا تبدیل ہوا کہ جو عدالت خود شیخ حسینہ نے قائم کی تھی اور جس کا وہ دفاع کرتی رہیں، اسی نے ان پر انسانیت کے خلاف جرائم کا مقدمہ چلایا اور آج الزامات ثابت ہونے پر شیخ حسینہ کو سزائے موت سنا دی ہے۔






