
سعودی عرب کے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان منگل کو امریکہ کے دورے پر پہنچ رہے ہیں۔ ان کے اس دورے میں امریکی ساختہ F-35 لڑاکا طیاروں کی خریداری سمیت کئی اہم کاروباری معاہدوں پر پیش رفت متوقع ہے۔
محمد بن سلمان کا 2018 میں جمال خشوگی کے قتل کے واقعے کے بعد یہ پہلا دورۂ امریکہ ہوگا۔ جمال خشوگی ایک سعودی صحافی تھے جو اپنی حکومت کے سخت ناقد سمجھے جاتے تھے۔ انہیں ترکیہ کے شہر استنبول میں سعودی ایجنٹس نے قتل کر دیا تھا جس پر عالمی سطح پر ایک ہنگامہ کھڑا ہوا تھا۔
امریکی انٹیلی جینس نے قرار دیا تھا کہ جمال خشوگی کی گرفتاری یا قتل کا حکم خود محمد بن سلمان نے دیا تھا۔ سعودی ولی عہد نے حکم دینے کی تردید کی تھی تاہم انہوں نے سعودی ریاست کا سربراہ ہونے کی حیثیت سے ذمے داری قبول کی تھی۔
تقریباً سات سال بعد امریکہ کے دورے پر ان کا شاہانہ استقبال متوقع ہے۔ محمد بن سلمان پورا دن وائٹ ہاؤس میں گزاریں گے۔ جہاں وہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے اوول آفس میں ملاقات کریں گے اور ان کے ساتھ ظہرانے اور عشائیے میں بھی شرکت کریں گے۔
اس دورے میں دونوں ملکوں کے درمیان بڑے کاروباری معاہدے متوقع ہیں۔ ٹرمپ کو امید ہے کہ وہ 600 ارب ڈالر کی سعودی سرمایہ کاری کے وعدے کو عملی جامہ پہنانے کی طرف بڑھیں گے جو ان کے مئی میں سعودی عرب کے دورے کے دوران کیا گیا تھا۔
وائٹ ہاؤس کے ایک اعلیٰ عہدے دار نے رائٹرز کو بتایا ہے کہ امریکہ اور سعودی عرب کے درمیان ٹیکنالوجی، پیداوار، دفاع اور دیگر شعبوں میں اہم معاہدوں کی توقع ہے۔
امریکی ساختہ F-35 لڑاکا طیاروں کی فروخت
امریکی صدر نے سعودی عرب کو امریکی ساختہ F-35 لڑاکا طیارے فروخت کرنے کا بھی اعلان کیا ہے۔ پیر کو صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ہم انہیں طیارے فروخت کریں گے۔ سعودی عرب نے 48 لڑاکا طیاروں کی فراہمی کی درخواست کی ہے۔
واضح رہے کہ مشرقِ وسطیٰ میں صرف اسرائیل کے پاس F-35 لڑاکا طیارے ہیں۔ اور اگر امریکہ سعودی عرب کو یہ طیارے فروخت کرتا ہے تو یہ پہلی بار ہوگا کہ امریکہ سعودی عرب کو طیارے فروخت کرے گا جو نہ صرف اس کی پالیسی میں بڑی تبدیلی ہوگی بلکہ اس سے مشرقِ وسطیٰ میں طاقت کا توازن بھی تبدیل ہوگا۔
امریکہ کی پالیسی رہی ہے کہ اسرائیل کو خطے میں دیگر قوتوں پر برتری حاصل رہے۔ سعودی عرب کو F-35 طیارے فروخت کرنا اس پالیسی کا بھی امتحان ہوگا۔
فوجی ساز و سامان کے ساتھ ساتھ سعودی ولی عہد کے دورے کا ایک مقصد سیکیورٹی کی ضمانت حاصل کرنا بھی ہے۔ اس کے علاوہ مصنوعی ذہانت کی ٹیکنالوجی اور سویلین نیوکلیئر پروگرام سے متعلق معاہدوں پر پیش رفت بھی ان کے مقاصد میں شامل ہوں گے۔
وائٹ ہاؤس کے اعلیٰ عہدے دار نے رائٹرز سے گفتگو میں کہا کہ 'سعودی امریکہ پر بہت پیسہ خرچ کریں گے۔'
ابراہیمی معاہدوں میں سعودی عرب کی شمولت کا معاملہ
اس دورے میں ایک اور اہم معاملہ بھی زیرِ بحث آ سکتا ہے جو ہے سعودی عرب کی ابراہیمی معاہدوں میں شمولیت۔ یہ توقع کی جا رہی ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ محمد بن سلمان پر زور دیں گے کہ سعودی عرب اسرائیل کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے کے لیے ابراہیمی معاہدوں کا حصہ بنے۔
ٹرمپ کئی بار اس امید کا اظہار کر چکے ہیں کہ سعودی عرب ابراہمی معاہدوں کا حصہ بنے گا۔ تاہم سعودی عرب اب تک اس سے گریزاں نظر آیا ہے۔ سعودی عرب چاہتا ہے کہ پہلے فلسطینی ریاست کے قیام کی راہ ہموار ہو۔
امریکی صدر ٹرمپ اپنی پہلی مدت صدارت میں اسرائیل کے متحدہ عرب امارات، بحرین، مراکش اور سوڈان سے تعلقات بحال کرا چکے ہیں۔ حال ہی میں قزاقستان نے بھی ابراہیمی معاہدوں میں شامل ہونے کا اعلان کیا ہے۔






