ثنا یوسف قتل کیس میں ملزم عمر حیات کو 14 دن کی عدالتی ریمانڈ پر جیل بھیج دیا گیا

09:554/06/2025, Çarşamba
جنرل4/06/2025, Çarşamba
ویب ڈیسک
عمر حیات کو دوبارہ 18 جون کو عدالت میں پیش کرنے کی ہدایت کی گئی۔
تصویر : سورس / فیس بک
عمر حیات کو دوبارہ 18 جون کو عدالت میں پیش کرنے کی ہدایت کی گئی۔

حالیہ برسوں میں کئی ایسے واقعات پیش آئے ہیں جن میں خواتین کو اُن مردوں کے ہاتھوں تشدد یا قتل کا نشانہ بنایا گیا جنہیں وہ جانتی تھیں۔ ان میں سے کئی خواتین سوشل میڈیا، خاص طور پر ٹک ٹاک پر بھی سرگرم تھیں۔

اسلام آباد کی ایک مقامی عدالت نے 17 سالہ ثنا یوسف کے قتل کے مرکزی ملزم عمر حیات کو شناختی پریڈ کے لیے 14 روزہ جوڈیشل ریمانڈ پر اڈیالیہ جیل بھیج دیا گیا۔

ملزم کو پولیس نے سخت سیکورٹی میں اسلام آباد کی مقامی عدالت میں چہرے پر سیاہ کپڑا ڈال کر پیش کیا گیا۔ پراسیکیوٹرز نے شناختی عمل کے لیے ملزم کو جوڈیشل ریمانڈ پر رکھنے کی درخواست کی، جسے عدالت نے منظور کر لیا۔ عمر حیات کو دوبارہ 18 جون کو عدالت میں پیش کرنے کی ہدایت کی گئی۔

عدالت نے جیل حکام کو ہدایت دی کہ شناختی پریڈ مکمل ہونے تک ملزم کو کسی بھی قسم کی ملاقات کی اجازت نہ دی جائے۔

عدالت نے اپنے تحریری فیصلے میں کہا کہ یہ کیس ایک سنگین قتل کا ہے، اس لیے سخت قانونی تحفظات ضروری ہیں۔

ملزم عمر حیات کو ایک روز قبل فیصل آباد کے قریب جڑانوالہ سے گرفتار کیا گیا تھا۔ پولیس کے مطابق 22 سالہ ملزم ثنا کو مسلسل تنگ کر رہا تھا اور بار بار دوستی سے انکار پر اس نے قتل کر دیا۔

ثنا یوسف کو 2 جون کو اسلام آباد کے سیکٹر جی-13 میں اپنے گھر میں گولی مار کر قتل کر دیا گیا تھا۔


پاکستان میں خواتین کا قتل عام

28 جنوری کو کوئٹہ میں ایک شخص انور الحق پر قتل کا الزام عائد کیا گیا، جس نے اپنی 14 سالہ بیٹی حرا انور کو گولی مار کر ہلاک کرنے کا اعتراف کیا۔ یہ خاندان حال ہی میں امریکہ سے واپس پاکستان آیا تھا۔ والد نے پولیس کو بتایا کہ انہیں اپنی بیٹی کا ٹک ٹاک ویڈیوز بنانا پسند نہیں تھا۔

اکتوبر 2024 میں کراچی میں پولیس نے ایک شخص کو گرفتار کیا جس پر اپنے خاندان کی چار خواتین کو قتل کرنے کا الزام تھا۔ پولیس کے مطابق یہ خواتین 60، 21، 20، اور 12 سال کی عمر کی تھیں اور ان کے گلے کٹے ہوئے تھے۔

2022 میں امریکی شہر شکاگو میں پاکستانی نژاد سوشل میڈیا انفلونسر ثانیہ خان کو اس کے سابق شوہر راحت احمد نے قتل کر دیا۔ اس قتل کے بعد ملزم نے خود کو بھی گولی مار لی۔

2016 میں پاکستانی سوشل میڈیا اسٹار قندیل بلوچ کا قتل اس کے بھائی نے کیا تھا۔ وہ 26 سال کی تھیں۔

ماہرین کہتے ہیں کہ وہ خواتین جو آن لائن ویڈیوز شئیر کرتی ہیں، خاص کر جو سماجی اصولوں کو چیلنج کرتی ہیں یا اپنی زندگی روایات سے الگ انداز میں گزارتی ہیں، انہیں زیادہ زیادتی اور دھمکیاں ملتی ہیں۔ انہیں نہ صرف آن لائن گالیاں اور دھمکیاں ملتی ہیں بلکہ کبھی کبھار جسمانی طور پر بھی مار پیٹ کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے مطابق 2024 میں پاکستان میں 346 خواتین کو ’غیرت‘ کے نام پر قتل کیا گیا، جو 2023 کے مقابلے میں زیادہ تعداد ہے۔ ان اعداد و شمار میں وہ کیسز شامل نہیں ہیں جہاں قاتل متاثرہ فرد کا رشتہ دار نہ ہو، جیسے ثنا یوسف قتل کیس، جس میں ملزم نے دوستی ٹھکرائے جانے پر قتل کیا۔

جولائی 2021 میں اسلام آباد میں 27 سالہ نور مقدم کو ظاہر جعفر نے قتل کیا تھا، ملزم کو نور مقدم کی فیملی جانتی تھی۔ 2022 میں عدالت نے ظاہر جعفر کو نور مقدم کے ریپ، قتل اور سر قلم کرنے کے جرم میں موت کی سزا سنائی تھی۔ پاکستان کی سپریم کورٹ نے حال ہی میں اس سزا کو برقرار رکھا ہے۔

ماہرین کہتے ہیں کہ ہمیں نظام بدلنے کی ضرورت ہے۔ ریاست کو چاہیے کہ وہ سوشل میڈیا پر خواتین کے خلاف نفرت اور خواتین پر تشدد کو الگ الگ نہیں بلکہ ایک جیسے خطرے کے طور پر دیکھے۔ جب کوئی عورت انکار کرے اور مرد غصے میں آکر تشدد کرے، تو یہ ظلم ہے۔







#پاکستان
#ثنا یوسف قتل کیس
#اسلام آباد
#خواتین