راولپنڈی میں جرگے کے حکم پر شادی شدہ لڑکی کا ’غیرت کے نام پر‘ قتل

11:0528/07/2025, Pazartesi
جنرل28/07/2025, Pazartesi
ویب ڈیسک
 پاکستان کمیشن برائے انسانی حقوق کے مطابق جنوری سے نومبر 2024 کے درمیان غیرت کے نام پر قتل کے  392 کیسز رپورٹ ہوئے۔
تصویر : سوشل / فائل
پاکستان کمیشن برائے انسانی حقوق کے مطابق جنوری سے نومبر 2024 کے درمیان غیرت کے نام پر قتل کے 392 کیسز رپورٹ ہوئے۔

اعداد و شمار کے مطابق 2021ء سے 2023ء کا ڈیٹا بتاتا ہے کہ ملک بھر میں غیرت کے نام پر ہونے والے خواتین کے قتل کی تعداد ایک ہزار 203 ہے جن میں 492 تعداد کے ساتھ پنجاب سرفہرست ہے

پاکستان میں جرگے کے فیصلے کے تحت ایک اور لڑکی کو غیرت کے نام پر قتل کردیا گیا ہے، اس بار یہ واقعہ راولپنڈی میں پیش آیا۔

سدرا نامی لڑکی کی موت کی وجوہات جاننے کے لیے پیر (آج) کو سخت سیکیورٹی میں اس کی قبر کشائی کی جائے گی۔ متاثرہ لڑکی کے دوسرے شوہر نے پولیس کو اپنا بیان ریکارڈ کروایا ہے اور انہیں اس کیس کا اہم گواہ قرار دیا جا رہا ہے۔

سدرا گل کی شادی رواں سال 17 جنوری کو ہوئی تھی، وہ محض 19 برس کی تھی۔ واقعے کا مقدمہ ریاست کی مدعیت میں درج ہے اور اس میں دفعہ 311 کا اطلاق کیا گیا ہے، جس کے تحت یہ جرم ناقابلِ صلح ہے یعنی فریقین کے درمیان معافی یا راضی نامہ ممکن نہیں۔

انیس سالہ سدرا کے شوہر عثمان کو اُس وقت پولیس نے گرفتار کیا تھا جب سدرا کے پہلے شوہر ضیاءالرحمٰن نے اس کے خلاف اغوا کا مقدمہ درج کروایا۔ تاہم عثمان، جنہیں مبینہ طور پر مظفرآباد سے راولپنڈی لایا گیا، نے پولیس کو نکاح نامہ اور دیگر قانونی دستاویزات پیش کیں جو اس کی سدرا سے شادی کو ثابت کرتی ہیں۔

پولیس ذرائع کے مطابق عثمان کا کہنا ہے کہ اس نے سدرا سے اُس وقت نکاح کیا جب وہ اپنے پہلے شوہر سے طلاق کے بعد عدت مکمل کر چکی تھی۔ سدرا نے مظفرآباد میں ایک جوڈیشل مجسٹریٹ کے سامنے بھی بیان ریکارڈ کروایا تھا، جس میں اس نے کہا تھا کہ اس نے عثمان سے رضامندی سے شادی کی اور اسے اپنی جان کا خطرہ ہے۔

پولیس حکام کے مطابق سدرا نے عدالت سے حفاظت کی درخواست کی تھی۔ متاثرہ لڑکی کا عدالت میں دیا گیا بیان اور اس کے دوسرے شوہر عثمان کا بیان اس کیس میں اہم ثبوت سمجھے جا رہے ہیں۔



سدرا کا اغوا کے بعد ’غیرت کے نام‘ پر قتل کیسے ہوا؟

تفتیشی افسران کا ماننا ہے کہ سدرا کو زبردستی اُس وقت اغوا کیا گیا جب وہ راولپنڈی کے علاقے پیرودھائی میں عثمان کے ساتھ تھی۔ اسے اُس کے خاندان کے پانچ مسلح افراد نے لے جاکر کہا کہ وہ اسے رسمی رخصتی کے لیے لے جا رہے ہیں۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ سدرا کے خاندان اور پہلے شوہر کے رشتہ داروں پر مشتمل ایک جرگہ بلایا گیا، جس میں یہ فیصلہ ہوا کہ چونکہ سدرا گھر سے بھاگ کر شادی کر چکی ہے، اس لیے وہ زندہ رہنے کی حقدار نہیں۔


سدرا کے دوسرے شوہر نے اپنے آپ کو پولیس کے حوالے کردیا

عثمان کے والد محمد الیاس کا ایک ویڈیو بیان بھی سامنے آیا ہے، جس میں انہوں نے بتایا کہ سدرا نے ان سے مدد مانگی تھی۔ ’سدرا نے کہا تھا کہ اس کے والد فوت ہو چکے ہیں، اس کی ماں نے اس کے چچا سے شادی کر لی ہے اور اسے زبردستی ایک اور رشتے میں باندھنے کی کوشش کی جا رہی ہے‘۔ محمد الیاس کے مطابق انہوں نے 30 ہزار روپے کا بندوبست کیا، سدرا کو عدالت لے گئے اور اسلامی طریقے سے اس کی عثمان سے شادی کروائی۔

محمد الیاس نے الزام لگایا کہ شادی کے صرف چار دن بعد، کچھ مسلح افراد نے ان کے گھر پر دھاوا بولا اور ان کے خاندان کو دھمکیاں دیں۔ بعد میں وہ لوگ سدرا کے سسرالیوں کو یہ کہہ کر مطمئن کرنے میں کامیاب ہو گئے کہ وہ سدرا کی باقاعدہ رخصتی کروائیں گے۔ لیکن صرف دو دن بعد انہیں میڈیا کے ذریعے پتہ چلا کہ سدرا کو قتل کر دیا گیا ہے۔

الیاس کا کہنا تھا کہ ’میں نے اپنے بیٹے کو خود پولیس کے حوالے کیا تاکہ اس پر کوئی الزام نہ آئے۔‘ انہوں نے مزید کہا کہ اب ان کا پورا خاندان خطرے میں ہے اور انہوں نے سیکیورٹی کی درخواست کی ہے۔



اب تک کتنے لوگ گرفتار ہوئے؟

پولیس نے اب تک تین افراد کو گرفتار کر لیا ہے جن میں ایک قبرستان کمیٹی کا رکن، ایک قبریں کھودنے والا (گورکن) اور ایک رکشہ ڈرائیور شامل ہیں۔ ان تینوں کو ریمانڈ پر لیا گیا ہے اور انہیں پیر (آج) عدالت میں پیش کیا جائے گا۔

پولیس نے قبرستان کی سی سی ٹی وی ڈی وی آر (ریکارڈنگ سسٹم) اور دیگر ریکارڈ قبضے میں لے لیے ہیں۔ اس کے علاوہ وہ رکشہ بھی قبضے میں لے لیا گیا ہے جس میں سدرا کی لاش لائی گئی تھی اور قبر کھودنے کے اوزار بھی قبضے کر لیے گئے ہیں۔

سی سی ٹی وی ویڈیو میں دیکھا گیا کہ جس دن سدرا کو دفن کیا گیا، اس دن سخت بارش ہو رہی تھی اور جرگے کے کچھ افراد قبر کے آس پاس گھوم رہے تھے۔

اس ویڈیو اور دیگر شواہد سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ جس رکشے میں سدرا کی لاش لائی گئی اور جس جگہ اسے دفن کیا گیا، ان دونوں کا سدرا کی گمشدگی اور موت سے براہِ راست تعلق ہے۔

گورکن (قبر کھودنے والے) نے پولیس کو بتایا کہ سدرا کو 17 جولائی کی صبح 5 بجکر 30 منٹ پر دفن کیا گیا۔ ان کا کہنا ہے کہ قبرستان کمیٹی کے رکن گل بادشاہ نے فون پر اسے ایک گھنٹے کے اندر قبر تیار کرنے کا کہا تھا۔ لیکن شدید بارش اور مزدور نہ ہونے کے باعث قبر وقت پر تیار نہ ہو سکی۔ پھر گل بادشاہ خود 25 مزدوروں کے ساتھ آیا اور قبر کھدوائی۔

سدرا کی لاش کو ایک رکشے میں لا کر دفنایا گیا اور قبر پر اس انداز سے مٹی ڈالی گئی کہ وہ آس پاس کی زمین میں گم ہو جائے، تاکہ کسی کو شک نہ ہو۔ قبرستان میں دفن کرنے کے لیے جو رسید دی جاتی ہے، وہ قبر نمبر 78 کے لیے ’سدرا دختر عرب گل‘ کے نام پر گل بادشاہ کے بیٹے کو دی گئی۔ لیکن بعد میں جب پولیس نے ریکارڈ چیک کیا، تو پتا چلا کہ رسیدوں کی اصل کتاب بدل دی گئی ہے اور جس میں یہ رسید نمبر 78 تھی، وہ غائب ہے۔

حکام کے مطابق ثبوت مٹانے کی کوشش کی گئی تاکہ پولیس کو قتل اور دفنانے کے بارے میں کچھ پتا نہ چلے۔

پولیس نے اب تفتیش کا دائرہ وسیع کر دیا ہے، جس میں جرگے کے تمام ارکان، ثبوت مٹانے والے افراد اور دیگر مشتبہ افراد کو شامل تفتیش کیا جا رہا ہے۔ تاہم اب تک جرگے کے سربراہ یا دیگر افراد کی گرفتاری کا اعلان نہیں کیا گیا۔

سی پی او خالد حمدانی نے بتایا کہ شروع میں ملزمان نے معاملے کو اغوا کا کیس بنا کر پیش کیا، لیکن تفتیش میں یہ جھوٹ ثابت ہوا۔ انہوں نے کہا کہ ’لڑکی کو قتل کیا گیا اور چھپ کر دفنایا گیا۔ قبر کے نشانات مٹا دیے گئے۔ ہم ایسے معاملات کو بہت سنجیدگی سے لیتے ہیں۔‘

ایک خصوصی پولیس ٹیم کو قبر تلاش کرنے اور اس کی حفاظت کے لیے تعینات کیا گیا۔

اب یہ مقدمہ پولیس اور ریاست کی جانب سے چلایا جا رہا ہے۔ اس میں پاکستان پینل کوڈ کی دفعہ 311 کا اطلاق کیا گیا ہے، جس کا مطلب ہے کہ یہ جرم ’ناقابلِ راضی نامہ‘ ہے، یعنی اب اس میں صلح یا معافی کی گنجائش نہیں۔ تفتیش کے دوران پولیس نے اب تک آٹھ افراد کو حراست میں لیا ہے، جن میں گورکن (قبر کھودنے والا)، قبرستان کا سیکریٹری، رکشہ ڈرائیور، سدرا کا شوہر اور خاندان کے دیگر افراد بشمول اس کا بھائی شامل ہیں۔


پاکستان میں غیرت کے نام پر قتل کے واقعات

ہیومن رائٹس کمیشن برائے پاکستان (ایچ آر سی پی) کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق 2021ء سے 2023ء کا ڈیٹا بتاتا ہے کہ ملک بھر میں غیرت کے نام پر ہونے والے خواتین کے قتل کی تعداد ایک ہزار 203 ہے جن میں 492 تعداد کے ساتھ پنجاب سرفہرست ہے۔ سندھ میں 451، خیبرپختونخوا میں 196، بلوچستان میں 61، اسلام آباد میں 2 جبکہ گلگت بلتستان میں ایک خاتون کو قتل کیا گیا۔

سندھ میں 2023ء اور 2024ء کے جاری کردہ اعداد و شمار میں غیرت کے نام پر ہونے والے قتل کی تعداد 307 ہے جن میں 134 مردوں اور 173 خواتین کو کاروکاری کے نام پر موت کے گھاٹ اتارا گیا۔ ان 307 میں سے 4 مقتولین کا تعلق ہندو برادری سے تھا۔ قاتلوں میں قریبی رشتے دار شامل ہیں جن میں والد، بھائی، شوہر، سسرال و دیگر نمایاں ہیں۔

2024ء میں اگر پورے ملک کی بات کی جائے تو 405 خواتین کو غیرت کے نام پر قتل کیا گیا۔ جبکہ 4 ہزار 175 ریپ کے کیسز رپورٹ ہوئے، ایک ہزار 641 کیسز جبکہ خواتین پر تشدد اور آن لائن ہراسانی کے کیسز کی تعداد 3 ہزار 121 بتائی جاتی ہے۔


(خبر کی تفصیلات ڈان سے لی گئی ہیں)



#خواتین
#پاکستان
#غیرت کے نام پر قتل