
اسرائیل کی ایک مذہبی جماعت نے وزیراعظم نیتن یاہو کی حکومت سے علیحدگی اختیار کر لی ہے۔ یہ فیصلہ فوجی بھرتی کے نئے قانون پر طویل عرصے سے جاری تنازع کے بعد سامنے آیا ہے۔
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق ’یونائیٹڈ توراہ جوڈازم‘ (یو ٹی جے) کے چھ ارکان کی علیحدگی کے بعد نیتن یاہو کی حکومت پارلیمنٹ (کنیسٹ) میں صرف ایک نشست کی معمولی اکثریت پر رہ گئی ہے۔
تو کیا نیتن یاہو کی حکومت گر جائے گی؟ نہیں، لیکن ایسا ہو بھی سکتا ہے۔
’یونائیٹڈ توراہ جوڈازم‘ کا اتحاد ایک اور الٹرا آرتھوڈوکس جماعت ’شاس‘ کے ساتھ ہے۔ اگر شاس بھی اتحاد چھوڑتی ہے تو نیتن یاہو پارلیمانی اکثریت کھو بیٹھیں گے اور حکومت کا چلنا مشکل ہو جائے گا۔
لیکن ابھی ’یونائیٹڈ توراہ جوڈازم‘ کے وزیروں نے استعفیٰ دیا نہیں بلکہ صرف اعلان کیا ہے، جو 48 گھنٹے بعد مؤثر ہو گا۔ اس دوران نیتن یاہو کے پاس مصالحت کا موقع ہے۔
اگر بات نہ بنی تو بھی جولائی کے آخر میں پارلیمنٹ کی چھٹیاں شروع ہو جائیں گی، جس سے نیتن یاہو کو بحران حل کرنے کا مزید تین مہنے کا وقت مل جائے گا۔
تو ابھی حکومت نہیں گر رہی، لیکن خطرہ موجود ہے۔
نیتن یاہو نے ماضی میں کئی بار اپنی سیاسی مہارت سے ایسے بحرانوں سے بچاؤ کیا ہے، اس لیے کچھ بھی ممکن ہے۔
اسرائیلی حکومت کیسے کام کرتی ہے؟
اسرائیل میں حکومتیں اکثر اپنی چار سالہ مدت پوری نہیں کرتیں۔ وجہ یہ ہے کہ وہاں کبھی بھی کوئی ایک پارٹی مکمل اکثریت سے نہیں جیتی۔
اسی لیے حکومت بنانے کے لیے کئی پارٹیاں مل کر اتحاد بناتی ہیں۔ لیکن اتحاد میں شامل جماعتوں کے نظریات اور مطالبے مختلف ہوتے ہیں۔ وزیراعظم کو ان سب کو راضی رکھنا پڑتا ہے، جو آسان نہیں ہوتا۔
جب کسی معاملے پر اختلاف بڑھتا ہے تو اتحاد ٹوٹ سکتا ہے اور پھر حکومت بھی ختم ہو جاتی ہے۔
کیا اسرائیل میں جلد انتخابات ہو سکتے ہیں؟
ممکن ہے، لیکن فوراً نہیں۔
اسرائیل میں فوری انتخابات کا امکان کم ہے، البتہ آئندہ چند مہینوں میں سیاسی حالات ایسے رخ اختیار کر سکتے ہیں کہ انتخابات وقت سے پہلے کروائے جائیں۔
ایسا تب ممکن ہوگا اگر پارلیمنٹ خود کو تحلیل کرنے کے حق میں ووٹ دے یا حکومت سالانہ بجٹ منظور کروانے میں ناکام ہو جائے۔
لیکن ان میں سے کسی بھی صورت میں انتخابات فوری طور پر نہیں ہوں گے۔
کچھ تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ موجودہ اسمبلی کی مدت، جو 2026 کے آخر تک ہے، اگلے سال کے آغاز میں ہی ختم ہو سکتی ہے۔
اسرائیل میں انتخابات پارلیمانی ہوتے ہیں۔
120 رکنی پارلیمنٹ (کنیسٹ) میں نشستیں پارٹیوں کو تناسبی نمائندگی کے تحت دی جاتی ہیں یعنی جو پارٹیاں کم از کم 3.25 فیصد ووٹ حاصل کریں، وہ نشستیں لینے کی اہل ہوتی ہیں۔
2019 سے اب تک اسرائیل میں پانچ قومی انتخابات ہو چکے ہیں۔ آخری انتخاب نومبر 2022 میں ہوا تھا، جس میں نیتن یاہو کو واضح کامیابی ملی تھی۔
تاہم حالیہ سروے بتاتے ہیں کہ اگر آج انتخابات ہوں تو ان کی موجودہ اتحادی حکومت شکست کھا سکتی ہے۔
اس وقت ان کی حکومت دائیں بازو اور مذہبی جماعتوں پر مشتمل ہے اور یو ٹی جے جیسے اتحادیوں کے متبادل تلاش کرنا نہایت مشکل ہوگا۔
کیا اسرائیلی سیاسی بحران غزہ کی صورتحال کو متاثر کرے گا؟
فی الحال یہ واضح نہیں ہے۔
قطر میں امریکی حمایت یافتہ جنگ بندی مذاکرات جاری ہیں، لیکن ان کا انجام کیا ہوگا، یہ کہنا قبل از وقت ہے۔
اسرائیل میں عوام کی ایک بڑی تعداد غزہ میں جنگ سے تھک چکی ہے اور حالیہ سروے بتاتے ہیں کہ لوگ چاہتے ہیں کہ کوئی ایسا معاہدہ ہو جائے جس سے یرغمالیوں کی واپسی ممکن ہو اور جنگ ختم کی جا سکے۔
نیتن یاہو کو اپنی حکومت میں اب بھی کافی حمایت حاصل ہے کہ وہ جنگ بندی کا فیصلہ کر سکیں۔ لیکن ان کی اتحادی حکومت میں شامل دو انتہا پسند جماعتیں:
یہودی پاور اور ریلیجیس صیہونیت، جو ابھی جنگ مکمل ختم کرنے کے حق میں نہیں لگتیں۔ اس لیے اگرچہ جنگ بندی ممکن ہے، لیکن مکمل امن معاہدے کی راہ میں سیاسی رکاوٹیں باقی ہیں۔