
اسرائیل کے وزیرِ اعظم بنیامن نیتن یاہو نے کہا ہے کہ وہ فلسطینیوں کے ساتھ امن چاہتے ہیں لیکن اگر مستقبل میں کوئی آزاد فلسطینی ریاست وجود میں آئی تو وہ اسرائیل کی تباہی کا پلیٹ فارم بنے گی۔
نیتن یاہو نے یہ گفتگو پیر کو وائٹ ہاؤس میں صدر ٹرمپ سے ملاقات کے دوران کی۔ صدر ٹرمپ سے صحافی نے سوال پوچھا کہ کیا فلسطین کے مسئلے کا دو ریاستی حل ممکن ہے؟ تو صدر نے کہا کہ مجھے معلوم نہیں اور جواب کے لیے نیتن یاہو کو آگے کر دیا۔
نیتن یاہو کا کہنا تھا کہ فلسطینیوں کے پاس حکومت کرنے کا پورا اختیار ہونا چاہیے لیکن کوئی ایسی قوت نہیں ہونی چاہیے جو ہمارے لیے خطرہ بنے۔ اور اس کا مطلب ہے کہ مجموعی سیکیورٹی ہمیشہ ہمارے پاس ہی رہے گی۔
انہوں نے کہا کہ لوگ کہتے تھے کہ فلسطینیوں کے پاس اپنا وطن ہے۔ غزہ میں حماس کی ریاست قائم تھی اور دیکھیں انہوں نے اس کے ساتھ کیا کیا۔ انہوں نے اسے ترقی دینے کے بجائے بنکر بنائے اور دہشت گردی کے لیے سرنگیں بنائیں جس کے بعد ہمارے لوگوں کا قتل عام کیا۔ تو اب لوگ یہ نہیں کہیں گے کہ انہیں پھر سے ایک ریاست دے دیں۔ یہ اسرائیل کا تباہی کا پلیٹ فارم ثابت ہوگا۔
نیتن یاہو کے بقول اور فلسطینی پڑوسیوں کے ساتھ امن چاہتے ہیں لیکن صرف ان کے ساتھ جو ہمیں تباہ نہیں کرنا چاہتے۔ اور ہم کوئی ایسی صورت نکالیں گے جس میں علاقے کی مجموعی سیکیورٹی ہمیشہ ہمارے ہاتھ میں رہے۔
ان کے بقول اب لوگ کہیں گے کہ یہ مکمل ریاست نہیں ہوگی تو نہ ہو۔ ہمیں کوئی پروا نہیں۔ ہم دوبارہ کبھی ایسا نہیں ہونے دیں گے۔
فلسطینیوں کا دیرینہ مطالبہ رہا ہے کہ ان کی ایک آزاد ریاست ہونی چاہیے جس میں غزہ، مغربی کنارہ اور مشرقی یروشلم کے علاقے شامل ہوں۔
دو ریاستی حل ہے کیا؟
دوسری عالمی جنگ ختم ہونے کے بعد اقوامِ متحدہ نے 1947 میں فلسطینی علاقوں کو دو حصوں یعنی یہودی اور عرب ریاست میں تقسیم کرنے کی منظوری دی تھی۔ اس مجوزہ منصوبے میں تاریخی شہر یروشلم کا انتظام اقوامِ متحدہ کو دینے کی تجویز دی گئی تھی۔
یہودی کمیونٹی کی جانب سے اسرائیل کے قیام کی راہ ہموار ہونے پر یہ منصوبہ تسلیم کر لیا گیا۔ تاہم عربوں نے زمین اور وسائل کی تقسیم پر تحفظات کا اظہار کیا اور مئی 1948 میں اسرائیل کے قیام کے اعلان کے ساتھ ہی اُردن، مصر، شام اور عراق نے اسرائیل پر حملہ کر دیا۔
مئی 1948 میں اسرائیل کا قیام تو عمل میں آ گیا لیکن فلسطینی ریاست قائم نہیں کی گئی۔ اسرائیل نے جنگ میں اقوامِ متحدہ کے مجوزہ علاقوں سے زیادہ رقبے کا کنٹرول سنبھال لیا تھا۔ تب سے اب تک فلسطینی ریاست وجود میں نہیں آ سکی ہے۔
اسرائیل پر یہ الزامات بھی لگتے ہیں کہ وہ مغربی کنارے میں فلسطینیوں کے علاقوں پر قبضے کر کے وہاں اپنی آبادیاں قائم کر رہا ہے جب کہ غزہ کو اس نے مکمل طور پر تباہ کر دیا ہے۔ اس اقدام سے وہ فلسطینیوں کی کسی ریاست کے قائم ہونے کے امکان کو ختم کر رہا ہے۔ اسرائیل اس الزام کی تردید کرتا ہے۔