
ٹرمپ کا ’غزہ پلان‘: فلسطینیوں کی نقل مکانی اور غزہ پر کنٹرول کا متنازع منصوبہ۔۔۔۔ صدر بننے کے بعد سے اب تک ٹرمپ نے غزہ اور فلسطینیوں سے متعلق کئی متنازع بیانات دیے۔ جنہیں انسانی حقوق کے ماہرین نسل کشی اور جبری بے دخلی قرار دے چکے ہیں۔
صدر ٹرمپ نے جنوری 2025 میں دوبارہ صدارت سنبھالنے کے بعد سے غزہ میں فلسطینیوں کی نقل مکانی اور امریکہ کے غزہ پر کنٹرول جیسے بیانات دینا شروع کیے۔ ان بیانات کو اقوام متحدہ، انسانی حقوق کی تنظیموں اور عرب ممالک نے نسل کشی کی کوشش قرار دیا ہے، جو بین الاقوامی قوانین کے خلاف ہے۔
آئیے دیکھتے ہیں کہ صدر بننے کے بعد سے اب تک ٹرمپ نے کیا بیانات دیے ہیں۔
25 جنوری: نقل مکانی کی ابتدائی تجویز
صدر کا عہدہ دوبارہ سنبھالنے کے صرف پانچ دن بعد ڈونلڈ ٹرمپ نے تجویز دی کہ مصر اور اردن غزہ کے فلسطینیوں کو اپنے ہاں پناہ دیں۔ انہوں نے غزہ کو ’تباہ شدہ علاقہ‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ ’ہم پورے علاقے کو صاف کردیں گے‘۔
کئی بار مصر اور اردن پر زور دیا، حالانکہ دونوں ممالک نے عوامی طور پر اس کی مخالفت کی۔
27 سے 31 جنوری: مصر اور اردن پر بار بار زور
اس دوران ڈونلڈ ٹرمپ نے تین مرتبہ فلسطینیوں کی نقل مکانی کی تجویز کو دہرایا اور دعویٰ کیا کہ مصر کے صدر اور اردن کے بادشاہ اس پر رضامند ہو جائیں گے۔
حالانکہ دونوں حکومتوں نے اس تجویز کو عوامی طور پر مسترد کر دیا تھا۔
4 فروری: مستقل بے دخلی کی تجویز
اسرائیلی وزیرِاعظم نیتن یاہو سے ملاقات سے پہلے ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ فلسطینیوں کو ’ایک اچھی، نئی، خوبصورت زمین‘ ملنی چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ ’مجھے سمجھ نہیں آتی کہ وہ یہاں کیوں رکنا چاہیں گے؟‘
4 فروری: امریکہ کا غزہ پر کنٹرول کا اعلان
اسی دن نیتن یاہو کے ساتھ ایک مشترکہ پریس کانفرنس میں ٹرمپ نے تجویز دی کہ امریکہ غزہ کا کنٹرول کرے سنبھالے گا۔
انہوں نے وعدہ کیا کہ غزہ سے ہتھیار ختم کردیے جائیں گے اور خطے کو دوبارہ تعمیر کیا جائے گا، جس کی مالی معاونت ’امیر عرب ممالک‘ کریں گے۔
جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا امریکی فوج تعینات کی جائے گی؟ تو ٹرمپ نے کہا کہ ’اگر ضرورت پڑی، تو ہم یہ بھی کریں گے۔‘
5 فروری: غزہ میں امریکی فوج بھیجنے کے بیان کی تردید
غزہ میں امریکی فوج بھیجنے کے ٹرمپ کے بیانات پر عالمی رہنماوٴں کی جانب سے تنقید کے بعد وائٹ ہاؤس نے وضاحت دی۔
پریس سیکریٹری کیرولین لیویٹ نے کہا کہ نقل مکانی عارضی ہوگی اور فوج بھیجنے کا کوئی حتمی فیصلہ نہیں ہوا۔ وزیر خارجہ مارکو روبیو نے بھی کہا کہ فلسطینی صرف کچھ وقت کے لیے غزہ سے باہر جائیں گے۔
6 فروری: ’فوج بھیجنے کی ضرورت نہیں‘
سوشل میڈیا پر ٹرمپ نے کہا کہ غزہ میں امریکی فوج کی کوئی ضرورت نہیں پڑے گی۔
انہوں نے دعویٰ کیا کہ جنگ ختم ہونے کے بعد اسرائیل غزہ کا کنٹرول چھوڑ دے گا اور فلسطینیوں کو ’زیادہ محفوظ اور خوبصورت علاقوں‘ میں بسایا جائے گا۔
10 فروری: فلسطینیوں کے واپس آنے کا حق مسترد
فاکس نیوز کو انٹرویو دیتے ہوئے ٹرمپ نے فلسطینیوں کے غزہ واپس آنے کے حق کو مسترد کر دیا۔
انہوں نے کہا کہ ’انہیں واپس آنے کی ضرورت ہی نہیں ہوگی کیونکہ ہم انہیں کہیں اور بہتر جگہ فراہم کریں گے‘۔
انہوں نے اپنی تجویز کو ایک ’مستقل حل‘ قرار دیا۔
11 فروری: ’ہم غزہ کو حاصل کریں گے‘
اردن کے بادشاہ عبداللہ سے ملاقات میں ٹرمپ نے اعلان کیا کہ ’ہم غزہ کو حاصل کریں گے۔‘
تاہم بادشاہ عبداللہ نے اس پر اتفاق نہیں کیا۔
جب ٹرمپ سے پوچھا گیا کہ کیا وہ مصر اور اردن پر امداد روکنے کا دباؤ ڈالیں گے؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ ’مجھے کسی کو دھمکی دینے کی ضرورت نہیں۔‘
7 اپریل: ٹرمپ نے غزہ کو ’قیمتی زمین‘ قرار دیا
نیتن یاہو سے دوسری ملاقات میں ٹرمپ نے غزہ کو ’انتہائی اہم اور قیمتی علاقہ‘ قرار دیا اور دوبارہ دعویٰ کیا کہ امریکہ خطے میں امن قائم کرنے کے لیے کردار ادا کرے گا۔
انہوں نے کہا کہ ’بہت سے لوگ میرے منصوبے کو پسند کر رہے ہیں‘۔ جس کا مطلب تھا کہ فلسطینیوں کو دوسرے ممالک میں منتقل کر دیا جائے۔
دوسری جانب مارچ میں عرب رہنماؤں نے مصر کا پیش کردہ 53 ارب ڈالر کا منصوبہ منظور کیا، جس میں فلسطینیوں کو ان کے گھروں سے بے دخل کیے بغیر غزہ کی تعمیر نو کی بات کی گئی تھی۔ لیکن ٹرمپ اور اسرائیل دونوں نے اس منصوبے کو مسترد کر دیا۔
7 جولائی: ’کچھ ممالک فلسطینیوں کو پناہ دینے کے لیے مدد کررہے ہیں‘
نیتن یاہو سے تیسری ملاقات کے دوران جب ٹرمپ سے فلسطینیوں کی بے دخلی کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے فیصلہ نیتن یاہو پر چھوڑ دیا، لیکن کہا کہ اردگرد کے ممالک مدد کر رہے ہیں۔
نیتن یاہو نے دعویٰ کیا کہ کچھ ممالک فلسطینیوں کو پناہ دینے پر رضامند ہونے کے قریب ہیں۔
نیتن یاہو نے مزید کہا کہ ’اگر لوگ رہنا چاہیں تو رہیں اور اگر جانا چاہیں تو انہیں اجازت دی جائے گی‘ انہوں نے اسے ’بہتر مستقبل کی طرف قدم‘ قرار دیا۔
8 جولائی: دو ریاستی حل غیر یقینی
جب ٹرمپ سے پوچھا گیا کہ کیا دو ریاستی حل (فلسطین اور اسرائیل کی علیحدہ ریاستیں) اب بھی ممکن ہے؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ ’مجھے نہیں معلوم‘۔
نیتن یاہو نے کہا کہ اگر مستقبل میں فلسطینی ریاست بنتی بھی ہے تو اسے اسرائیل کے لیے خطرہ بننے کی اجازت نہیں دی جائے گی اور سیکیورٹی کا مکمل کنٹرول اسرائیل کے پاس ہی رہے گا۔
اب تک وائٹ ہاؤس نے یہ واضح نہیں کیا کہ ٹرمپ کا غزہ پر کنٹرول اور فلسطینیوں کی ممکنہ بے دخلی کا منصوبہ بین الاقوامی قوانین کے مطابق کیسے ہوگا، کیونکہ جبری بے دخلی عالمی قوانین کے خلاف ہے۔
انسانی حقوق کی تنظیمیں اور عالمی ادارے بار بار مطالبہ کر رہے ہیں کہ فلسطینیوں کو ان کی زمین سے مستقل طور پر ہٹانے کے کسی بھی منصوبے کو فوراً روکا جائے۔