
اسرائیل اور حماس میں سے کسی نے بھی اس جنگ بندی کی تجویز کو باضابطہ طور پر قبول نہیں کیا ہے
صدر ٹرمپ کا اسرائیل اور حماس کے درمیان ممکنہ جنگ بندی کا اعلان امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے منگل کو کہا ہے کہ اسرائیل نے حماس کے ساتھ 60 دن کی جنگ بندی پر رضامندی ظاہر کی ہے۔
یہ اعلان ایسے وقت پر ہوا ہے جب غزہ میں مسلسل اسرائیلی میزائل حملے جاری ہے۔ صدر ٹرمپ نے کہا کہ جنگ بندی کے دوران امریکہ اسرائیل اور حماس، دونوں سے بات کرے گا تاکہ مسئلہ حل کیا جا سکے۔
تاہم اسرائیل اور حماس میں سے کسی نے بھی اس جنگ بندی کی تجویز کو باضابطہ طور پر قبول نہیں کیا ہے۔ ٹرمپ نے حماس کو خبردار کیا ہے کہ اگر انہوں نے اس منصوبے کو قبول نہ کیا تو حالات مزید خراب ہو سکتے ہیں۔ اسرائیل کی جانب سے جس شرائط پر رضامندی ظاہر کی گئی ہے، وہ تاحال واضح نہیں ہیں، جس کے باعث اس جنگ بندی کی کامیابی سے متعلق کئی سوالات جنم لے رہے ہیں۔
جنگ بندی کی تجاویز کی تفصیلات
یہ جنگ بندی کی تجویز بالکل نئی نہیں، بلکہ بظاہر صدر ٹرمپ کے مشرقِ وسطیٰ کے سفیر اسٹیو وِٹکوف کی جانب سے رواں سال کے آغاز میں پیش کیے گئے فریم ورک کی ترمیم شدہ شکل معلوم ہوتی ہے۔ ٹرمپ نے ایک سوشل میڈیا پوسٹ میں کہا ہے کہ قطر اور مصر اس منصوبے کی تفصیلات پر کام کر رہے ہیں اور جلد ہی حماس کے سامنے حتمی تجویز پیش کی جائے گی۔
مذاکرات میں شامل ایک مصری عہدیدار کے مطابق اس منصوبے میں حماس سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ جنگ بندی کے دوران مزید دس یرغمالیوں کو رہا کرے، جن میں سے آٹھ پہلے دن اور دو آخری دن رہا کیے جائیں گے۔ اس کے بدلے میں اسرائیل غزہ کے کچھ علاقوں سے اپنی افواج واپس بلائے گا اور وہاں انسانی امداد کے داخلے کی اجازت دے گا۔
مصری حکام کے مطابق امداد کی تقسیم سے متعلق ایک پرانا تنازع اب حل کر لیا گیا ہے۔
رپورٹس کے مطابق حماس اور اسرائیل اس بات پر متفق ہو گئے ہیں کہ اقوام متحدہ اور فلسطینی ریڈ کریسنٹ امدادی سرگرمیوں کی نگرانی کریں گے، جبکہ غزہ ہیومینیٹیرین فاؤنڈیشن (جسے اسرائیل اور امریکہ کی حمایت حاصل ہے) اپنی سرگرمیاں جاری رکھے گی، باوجود اس کے کہ اس پر بعض حلقوں کی جانب سے اعتراضات کیے جاتے رہے ہیں۔
جنگ بندی پر اسرائیل کا مؤقف
اسرائیلی وزیر خارجہ گیڈیون سار نے غزہ میں جنگ ختم کرنے اور یرغمالیوں کی واپسی کے لیے حماس کے ساتھ معاہدہ کرنے کے حکومتی عزم کا اظہار کیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’ہم یرغمالیوں کی رہائی اور جنگ بندی کے معاہدے کے لیے سنجیدہ ہیں۔ ہم نے (امریکی) خصوصی سفیر اسٹیو وِٹکوف کی تجاویز پر 'ہاں' کہا ہے۔‘
اسرائیلی وزیر خارجہ نے کچھ مثبت پیش رفت کو تسلیم کیا، تاہم زور دیا کہ حماس پر دباؤ ڈالنا ضروری ہے تاکہ وہ معاہدے کی شرائط مانے۔
انہوں نے عالمی برادری سے اپیل کی کہ وہ امریکی کوششوں کا ساتھ دیں اور حماس کی ممکنہ غلط فہمیوں کو دور کریں تاکہ پیش رفت ممکن ہو سکے۔
نیتن یاہو کا سخت مؤقف برقرار، ’جنگ بندی کے بعد حماس کا کوئی وجود نہیں ہوگا‘
اسرائیلی وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو نے غزہ جنگ کے حوالے سے اپنا سخت مؤقف دہراتے ہوئے کہا ہے کہ مجوزہ جنگ بندی کے بعد ’حماس کا کوئی وجود نہیں رہے گا‘۔
اسرائیلی قیادت کا ماننا ہے کہ ممکنہ جنگ بندی معاہدے میں اسرائیلی افواج کی کچھ علاقوں سے واپسی اور غزہ میں انسانی امداد میں اضافہ شامل ہو سکتا ہے۔
تاہم اسرائیلی حکومت نے تاحال امن مذاکرات میں شامل ہونے کی کوئی یقین دہانی نہیں کرائی، جس کے باعث طویل المدتی جنگ بندی اور مستقل امن کے امکانات پر سوالات اٹھنے لگے ہیں۔
جنگ بندی کی تجویز پر حماس کا ردعمل
مصری اور قطری ثالثوں کی جانب سے پیش کی گئی جنگ بندی کی تجاویز پر ردعمل دیتے ہوئے حماس کا کہنا ہے کہ وہ اس وقت ان تجاویز کا جائزہ لے رہی ہے۔
تنظیم کا مقصد ایسا معاہدہ کرنا ہے جو لڑائی کا خاتمہ اور اسرائیلی فوج کا غزہ سے انخلا یقینی بنائے۔
حماس سے قریبی ذرائع کا کہنا ہے کہ تنظیم کی قیادت جلد اس تجویز پر غور و بحث کرے گی اور ثالثوں سے بعض نکات پر وضاحت طلب کی جائے گی، جس کے بعد ہی کوئی باضابطہ ردعمل جاری کیا جائے گا۔
چیلنجز
اگرچہ جنگ بندی کی تجویز پر کچھ امید نظر آ رہی ہے، لیکن اب بھی کئی بڑے چیلنجز درپیش ہیں۔
ایک مصری عہدیدار نے بتایا کہ اسرائیل نے ابھی تک اس بات پر رضامندی ظاہر نہیں کی کہ وہ اپنی فوجیں ان مقامات تک واپس لے جائے گا جہاں وہ مارچ میں ختم ہونے والی پچھلی جنگ بندی سے پہلے موجود تھیں۔ مارچ کے بعد سے اسرائیلی فوج نے غزہ کے کئی علاقوں پر مزید کنٹرول حاصل کر لیا ہے، جس سے حماس پر دباؤ بڑھ گیا ہے۔
اس سے پہلے بھی کئی جنگ بندیاں ناکام ہو چکی ہیں۔ جنوری میں ہونے والا ایک معاہدہ بھی صرف ابتدائی مراحل تک محدود رہا، جس میں کچھ یرغمالیوں کی رہائی شامل تھی۔ لیکن دوسرے مرحلے جس میں حماس کو باقی تمام یرغمالیوں کے بدلے فلسطینی قیدیوں کی رہائی اور مستقل جنگ بندی حاصل ہونی تھی، پر عملدرآمد نہیں ہو سکا، جس کے بعد لڑائی دوبارہ شروع ہو گئی۔
اس مسلسل لڑائی کی وجہ سے غزہ میں شدید انسانی بحران پیدا ہوگیا ہے۔ اب تک 57 ہزار سے زائد فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں، جن میں زیادہ تر عام شہری شامل ہیں۔ 23 لاکھ کی پوری آبادی بے گھر ہو چکی ہے اور حالات دن بدن مزید خراب ہوتے جا رہے ہیں۔