
نئی تحقیق سے پتا چلا ہے کہ کیڑے یا جانور پودوں کی آوازیں سن سکتے ہیں۔ برطانوی نشریاتی ادارے کی رپورٹ کے مطابق تل ابیب یونیورسٹی کی ٹیم نے انکشاف کیا ہے کہ اگر ٹماٹر کے پودے کسی قسم کی دباؤ یا تکلیف میں ہوں اور وہ کسی قسم کی آواز نکالیں، تو مادہ موتھ (ایک قسم کا کیڑا) وہاں انڈے دینے سے گریز کرتی ہے۔
اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ شاید پودے اور جانوروں کے درمیان ایک خاموش اور نظر نہ آنے والا تعلق موجود ہے، جس کے ذریعے وہ ایک دوسرے سے بات چیت کرتے ہیں۔
تحقیقاتی ٹیم نے دو سال پہلے پہلی بار یہ ثابت کیا تھا کہ جب پودوں کی آواز ہوتی ہے لیکن یہ آوازیں انسان سن نہیں سکتے کیونکہ یہ ہماری سماعت کی حد سے باہر ہوتی ہیں، لیکن کئی کیڑے، چمگادڑیں اور کچھ دوسرے جانور ان آوازوں کو محسوس کر سکتے ہیں۔
تل ابیب یونیورسٹی کے پروفیسر یوسی یوول نے کہا کہ ’یہ پہلی بار ہے کہ کسی جانور کو پودے کی پیدا کردہ آواز پر ردعمل دیتے ہوئے دیکھا گیا ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’یہ ابھی صرف ایک اندازہ ہے، لیکن ہو سکتا ہے کہ جانور پودوں کی آوازیں سن کر فیصلہ کرتے ہوں کہ انہیں پولینیٹ کرنا ہے، ان میں چھپنا ہے یا انہیں کھانا ہے‘۔

تحقیقی ٹیم نے یہ یقینی بنانے کے لیے نہایت محتاط تجربات کیے کہ موتھز (کیڑے) پودے کی شکل و صورت نہیں بلکہ صرف آواز پر ردعمل دے رہے تھے۔
اب سائنسدان مختلف پودوں کی آوازیں اور دیگر کیڑوں کے ان پر ردعمل کا جائزہ لیں گے۔
ایک اور دلچسپ تحقیق یہ ہے کہ آیا پودے ایک دوسرے کو آواز کے ذریعے معلومات دے سکتے ہیں اور پھر حالات کے مطابق ردعمل ظاہر کرتے ہیں جیسے کہ قحط یا خشکی کے دوران پانی کو محفوظ رکھنا۔
تل ابیب یونیورسٹی سے تعلق رکھنے والی پروفیسر لیلاخ حدنی کہتی ہیں کہ ’یہ ایک بہت ہی دلچسپ سوال ہے۔‘
ان کا کہنا ہے کہ ’اگر ایک پودا دباؤ میں ہو تو سب سے زیادہ فکر دوسرے پودوں کو ہی ہوتی ہے اور وہ کئی طریقوں سے ردعمل دے سکتے ہیں۔‘
محققین اس بات پر زور دیتے ہیں کہ پودوں کے اندر سوچنے، سمجھنے یا محسوس کرنے کی صلاحیت نہیں ہوتی۔ جو آوازیں وہ نکالتے ہیں، وہ دراصل اُن کے اردگرد حالات میں تبدیلی کے باعث پیدا ہونے والے طبعی اثرات کی وجہ سے ہوتی ہیں، جیسے پانی کی کمی یا تناؤ۔
آج کی دریافت سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ یہ آوازیں دوسرے کیڑوں اور ممکنہ طور پر دوسرے پودوں کے لیے فائدہ مند ہو سکتی ہیں، اگر وہ یہ آوازیں سن سکتے ہوں۔
پروفیسر لیلاخ حدنی کے مطابق اگر ایسا ہے تو یہ ممکن ہے کہ پودوں اور جانوروں نے لاکھوں سال میں ایک دوسرے کے ساتھ ارتقائی مطابقت کے ذریعے آوازیں نکالنے اور سننے کی صلاحیت پیدا کی ہو، تاکہ دونوں کو فائدہ ہو۔
وہ کہتی ہیں کہ ’اگر پودوں کے لیے آواز نکالنا فائدے مند ہو، تو وہ زیادہ یا تیز آواز نکالنے کی صلاحیت حاصل کر سکتے ہیں اور اسی طرح جانوروں کی سننے کی صلاحیت بھی ارتقائی طور پر بڑھ سکتی ہے، تاکہ وہ یہ معلومات جذب کر سکیں۔‘
تجربے میں محققین نے مادہ موتھ پر توجہ دی، جو عام طور پر ٹماٹر کے پودوں پر انڈے دیتی ہے تاکہ بچے نکلنے کے بعد پودے کے پتوں پر پل سکیں۔
مفروضہ یہ تھا کہ مادہ موتھ ہمیشہ ایسے صحت مند پودے تلاش کرتی ہے جو اُس کے بچوں کو اچھی غذا دے سکے۔
تو سوال یہ تھا کہ اگر پودا آواز کے ذریعے یہ سگنل دے کہ وہ پانی کی کمی یا دباؤ کا شکار ہے، تو کیا مادہ موتھ یہ انتباہ سن کر وہاں انڈے نہیں دے گی؟
جواب یہ ملا کہ موتھز نے واقعی ایسے پودوں پر انڈے نہیں دیے صرف اس لیے کہ وہ پودے ایسی آوازیں نکال رہے تھے جو تناؤ کی علامت تھیں۔
یہ تحقیق معروف سائنسی جریدے ای لائف میں شائع ہوئی ہے۔