
امریکی محکمہ خزانہ کا کہنا ہے کہ صدر کے حکم کے بعد 518 شامی افراد اور اداروں کو پابندیوں کی فہرست سے نکال دیا گیا۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے شام پر عائد پابندیاں ختم کرنے کے لیے ایگزیکٹو آرڈر پر دستخط کردیے ہیں۔ یہ فیصلہ اس وقت سامنے آیا ہے جب صدر بشار الاسد کی حکومت کا خاتمہ ہوئے چھ ماہ سے زیادہ کا وقت ہو چکا ہے۔
پیر کو جاری حکم نامے کے مطابق اب ان اداروں پر پابندیاں نہیں ہوں گی جو شام کی ترقی، حکومت چلانے اور ملک کو دوبارہ بہتر بنانے میں مدد دے رہے ہیں۔ امریکی محکمہ خزانہ کا کہنا ہے کہ اس فیصلے سے شام میں سرمایہ کاری کے نئے راستے کھل سکتے ہیں۔
امریکہ نے شام پر 2011 میں خانہ جنگی شروع ہونے سے بھی پہلے پابندیاں لگا رکھی تھیں۔
ان پابندیوں کی وجہ سے شام کی معیشت اور تعمیر نو میں رکاوٹ آرہی تھی۔
شامی وزیر خارجہ اسعد الشیبانی نے سوشل میڈیا پر صدر ٹرمپ کے فیصلے کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہا کہ ’یہ فیصلہ ملک کی تعمیر و ترقی کا دروازہ کھولے گا۔‘
انہوں نے کہا کہ ’اس فیصلے سے معیشت کی بحالی میں رکاوٹیں دور ہوں گی اور شام پھر سے دنیا سے رابطے بحال کرے گا‘۔
صدر ٹرمپ نے مئی میں مشرق وسطیٰ کے دورے کے دوران شام پر عائد پابندیاں ختم کرنے کا وعدہ کیا تھا۔
پیر کے روز اپنے بیان میں امریکی صدر نے کہا کہ ’امریکہ ایک ایسے شام کی حمایت کے لیے پرعزم ہے جو مستحکم، متحد اور اپنے عوام اور ہمسایوں کے ساتھ پرامن ہو۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’ایسا متحد شام جو دہشتگرد تنظیموں کو پناہ نہ دے اور اپنے مذہبی و نسلی اقلیتوں کا تحفظ کرے، وہ خطے میں امن اور خوشحالی کو فروغ دے گا۔‘
امریکی حکومت نے کہا ہے کہ شام سے متعلق جو پابندیاں بشار الاسد، اُن کے ساتھیوں، داعش (آئی ایس آئی ایل/آئی ایس آئی ایس)، ایران اور اس کے اتحادیوں پر عائد کی گئی ہیں، وہ برقرار رہیں گی۔
اگرچہ امریکی محکمہ خزانہ نے 518 شامی افراد اور اداروں کو پابندیوں کی فہرست سے نکال دیا ہے، لیکن کچھ پابندیاں اب بھی فوری طور پر نہیں ہٹائی جائیں گی۔
مثال کے طور پر صدر ٹرمپ نے امریکی اداروں کو ہدایت دی ہے کہ وہ دیکھیں کہ کیا سیزر ایکٹ کے تحت لگائی گئی پابندیاں ختم کرنے کے لیے شرائط پوری ہو چکی ہیں یا نہیں۔ سیزر ایکٹ ایک امریکی قانون ہے جس کے تحت شامی حکومت پر عام شہریوں کے خلاف مبینہ جنگی جرائم کے الزام میں سخت معاشی پابندیاں لگائی گئی تھیں۔
ادھر امریکی کانگریس کی رکن الہان عمر اور ریپبلکن رہنما آنا پالینا لونا نے اس ہفتے ایک نیا بل پیش کیا ہے، جس کا مقصد شام پر عائد پابندیاں قانونی طور پر ختم کر کے وہاں لمبے عرصے کے لیے ریلیف دینا ہے۔
صدر ٹرمپ نے امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو کو کہا ہے کہ وہ یہ جائزہ لیں کہ کیا شامی عبوری صدر احمد الشراع کو ’عالمی دہشتگرد‘ قرار دینے کا فیصلہ واپس لیا جا سکتا ہے۔
اسی طرح ٹرمپ نے یہ بھی حکم دیا ہے کہ احمد الشراع کے گروپ النصرہ فرنٹ (جو اب حیات تحریر الشام کہلاتا ہے) کو ’دہشتگرد تنظیم‘ کی فہرست سے نکالنے پر بھی غور کیا جائے۔ یہ گروپ پہلے القاعدہ سے منسلک تھا، لیکن احمد الشراع نے 2016 میں اس سے تعلق ختم کر دیا تھا۔
احمد الشراع نے کئی سال ادلب (شام کا ایک علاقہ) میں باغیوں کی حکومت سنبھالے رکھی تھی اور دسمبر 2024 میں بشار الاسد کی حکومت کو ختم کرنے کی قیادت کی تھی۔
ٹرمپ نے مئی میں سعودی عرب میں احمد الشراع سے ملاقات کی تھی اور ان کی تعریف کی کہ وہ ’دلچسپ اور مضبوط لیڈر‘ ہیں۔
احمد الشراع، جو پہلے ابو محمد الجولانی کے نام سے جانے جاتے تھے، نے وعدہ کیا ہے کہ وہ ایسی حکومت کی قیادت کریں گے جو سب کے حقوق کا خیال رکھے تاکہ ان کے القاعدہ سے پرانے تعلق پر لوگوں کو کوئی خدشہ نہ رہے۔
لیکن حالیہ مہینوں میں کچھ باغی جنگجوؤں کی طرف سے علوی فرقے (جس سے بشار الاسد کا تعلق ہے) کے افراد کو اغوا یا نقصان پہنچانے کی خبریں آئی ہیں، جس پر انسانی حقوق کے کارکنوں نے تشویش ظاہر کی ہے۔
احمد الشراع نے یہ بھی کہا ہے کہ شام کسی ہمسایہ ملک، جیسے اسرائیل کے لیے خطرہ نہیں بنے گا، حالانکہ اسرائیل شام کے اندر فوجی کارروائیاں کرتا رہا ہے۔