
پنجاب پولیس نے جمعرات کو لاہور میں جانوروں پر تشدد کرنے والی ایک خاتون کو گرفتار کر لیا۔
10 جولائی 2025 کو لاہور میں جانوروں پر ظلم کا ایک افسوسناک واقعہ سامنے آیا۔ سوشل میڈیا پر ایک پوسٹ وائرل ہوئی جس میں دعویٰ کیا گیا کہ ایک خاتون نے جنگلی اور پالتو جانوروں، جن میں ہرن، خرگوش، بلیاں اور کتے شامل تھے، کو انتہائی بُرے حالات میں قید کر رکھا تھا۔
جے ایف کے اینیمل ریسکیو اینڈ شیلٹر کے مطابق بہت سے جانور زخمی حالت میں پائے گئے اور شدید تکلیف میں تھے۔ ویڈیوز میں بلیاں، خرگوش اور پرندے پنجروں میں قید دکھائے گئے۔
خاتون نے اپنے انسٹاگرام پوسٹس پر بلیوں اور خرگوشوں کو مارنے کی ویڈیوز اور تصاویر شئیر کر رکھی تھیں۔خاتون نے ایک انسٹاگرام اسٹوری پر بلی کی تصویر پوسٹ کرکے لکھا کہ ’کوئی اسے لے گا یا میں اسے مار دوں؟‘ جس پر کئی سوشل میڈیا صارفین نے غصے کا اظہار کیا۔
سوشل میڈیا پوسٹ وائرل ہونے پر ادارے نے فوراً پولیس کو اطلاع دی، جو موقع پر پہنچی۔ وہاں جانوروں کی لاشیں، خون اور وہ خاتون ملی جو ’ہنس‘ رہی تھی۔ پولیس نے جانوروں کو بچا کر پولیس اینیمل اینڈ ریسکیو سینٹر منتقل کر دیا۔
لاہور کی اسسٹنٹ سپرنٹنڈنٹ پولیس شہر بانو نقوی نے اس واقعے پر ویڈیو پیغام میں بات کرتے ہوئے کہا کہ ’ہمیں ایک ایسا کیس ملا جہاں ایک لڑکی جانوروں پر ظلم کررہی تھی۔ اس کے پاس خرگوش، کچھ نایاب جانور، بلیاں اور بہت سی دوسری چیزیں موجود تھیں۔‘
انہوں نے بتایا کہ وہ لڑکی سوشل میڈیا پر جانوروں پر تشدد اور ظلم کی دل دہلا دینے والی تصاویر اور ویڈیوز شیئر کر رہی تھی۔
اے ایس پی شہر بانو نے عوام سے اپیل کی کہ وہ ذہنی مسائل کا شکار افراد کو پالتو جانور تحفے میں نہ دیں۔
انہوں نے کہا کہ ’براہِ مہربانی، جانوروں پر ظلم کے خلاف بات کریں کیونکہ جانوروں پر تشدد ہمیں بچوں اور کمزور طبقوں پر بھی ظلم کرنے کی طرف لے جاتا ہے۔‘
شہر بانو نقوی نے ڈان ڈاٹ کام کو بتایا کہ ملزمہ کو گرفتار کر کے ایک ذہنی صحت کے مرکز میں داخل کرا دیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’یہ خاتون ماضی میں بھی کئی بار مینٹل ہیلتھ کئیر مراکز سے فرار ہو چکی ہے۔‘
شہر بانو کے مطابق یہ مقدمہ پنجاب اینیمل ریسکیو سینٹر کی شکایت پر تھانہ ڈیفنس بی میں درج کیا گیا۔ اس مقدمے میں درج ذیل دفعات شامل ہیں:
پاکستان پینل کوڈ کی دفعہ 289 (جانوروں کے حوالے سے غفلت برتنے پر سزا) جانوروں پر ظلم کی روک تھام کے قانون 1890 کی دفعہ 3 (جانوروں پر ظلم یا انہیں غیر ضروری طور پر تکلیف دے کر ہلاک کرنے پر سزا) پنجاب وائلڈ لائف ایکٹ 1974 کی دفعہ 10-A (جانوروں پر ظلم) دفعہ 12 (جانور رکھنے کے لیے قانونی ملکیت کا سرٹیفکیٹ حاصل کرنا ضروری) دفعہ 15 (جانوروں، ان کے جسمانی اعضا یا گوشت کی خرید و فروخت پر پابندی)
ایف آئی آر کے مطابق خاتون نے جانوروں کو پنجرے میں قید کر کے ان پر ظلم کیا، انہیں مارا اور ان گھناؤنے مناظر کی ویڈیوز اور تصاویر انسٹاگرام سمیت دیگر سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر پوسٹ کیں۔
پنجاب اینیمل ریسکیو سینٹر کو 2023 میں لاہور میں جانوروں کے تحفظ اور بحالی کے لیے ایک پائینئر ادارے کے طور پر قائم کیا گیا۔ صرف ایک سال میں پنجاب اینیمل ریسکیو سینٹر نے جانوروں کو بدسلوکی، نظراندازی اور بے سہارا حالات سے بچانے میں نمایاں کردار ادا کیا ہے۔
اب تک ایک ہزار 130 جانوروں کو محفوظ پناہ گاہوں میں منتقل کیا جا چکا ہے، جہاں ان کا باقاعدہ علاج اور خیال رکھا گیا۔ ادارے نے مئی میں جانوروں پر ظلم اور ان کے حقوق سے متعلق ایک تفصیلی رپورٹ بھی جاری کی، جس کے مطابق دو سالوں میں ایک ہزار 379 جانوروں کو ریسکیو کیا گیا، جن میں سے 50 کو شدید ظلم کا سامنا تھا۔
پاکستان میں جانوروں کی دیکھ بھال اور تحفظ کے لیے کوئی مؤثر قانون یا نظام موجود نہیں۔ جو قانون سب سے زیادہ جانا جاتا ہے، یعنی جانوروں پر ظلم کی روک تھام کا قانون 1890، وہ انگریز دور کا پرانا قانون ہے اور آج کے دور کے مسائل پر پوری طرح نہیں اترتا۔
وفاقی حکومت نے 2018 میں ایک ترمیمی قانون منظور کیا جس کے تحت جانوروں پر ظلم کرنے پر پہلی بار جرم پر ایک لاکھ روپے تک جرمانہ مقرر کیا گیا، جو اس سے قبل صرف 50 روپے تھا۔ کم سے کم جرمانہ 10ہزار روپے رکھا گیا۔
تاہم یہ قانون صرف اسلام آباد میں لاگو ہوتا ہے، کیونکہ 18ویں ترمیم کے بعد جانوروں کی حفاظت اور فلاح کا معاملہ وفاق کا نہیں بلکہ صوبوں کا ہو گیا ہے، یعنی ہر صوبے کو اپنا الگ قانون بنانا ہوتا ہے۔ لیکن اب تک کسی صوبے نے اپنا نیا قانون نہیں بنایا، اس لیے پنجاب، سندھ، خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں اب بھی 1890 کا پرانا قانون ہی استعمال ہوتا ہے جو کمزور اور ناکافی ہے۔