
امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ اسرائیل نے غزہ میں 60 دن کی جنگ بندی کو حتمی شکل دینے کے لیے ’ضروری شرائط‘ تسلیم کر لی ہیں۔
اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ٹروتھ سوشل پر ٹرمپ نے بتایا کہ ان کے نمائندوں نے اسرائیلی حکام کے ساتھ ’طویل اور نتیجہ خیز‘ ملاقات کی۔
انہوں نے لکھا کہ ’اسرائیل نے 60 دن کی جنگ بندی کو حتمی شکل دینے کے لیے ضروری شرائط مان لی ہیں اور اس دوران ہم تمام فریقین کے ساتھ مل کر جنگ کے خاتمے کے لیے کام کریں گے۔‘
ٹرمپ نے مزید کہا کہ جنگ بندی مذاکرات میں ثالثی کا کردار ادا کرنے والے قطر اور مصر، فلسطینی گروپ حماس کو ’آخری تجویز‘ پہنچائیں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’میں امید کرتا ہوں کہ مشرق وسطیٰ کے بہتر مستقبل کے لیے حماس یہ معاہدہ قبول کرے، کیونکہ اس سے بہتر تجویز نہیں آئے گی، حالات صرف بگڑیں گے۔‘
اس سے پہلے دن میں ٹرمپ نے صحافیوں سے گفتگو میں کہا تھا کہ انہیں امید ہے کہ غزہ میں جنگ بندی ’اگلے ہفتے کسی وقت‘ طے پا جائے گی۔
انہوں نے یہ بھی بتایا کہ وہ اگلے ہفتے واشنگٹن ڈی سی میں اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو سے ملاقات کریں گے، جہاں ایران اور غزہ کے معاملات پر بات چیت ہو گی۔
ٹرمپ نے کہا کہ ’نیتن یاہو یہاں آرہے ہیں، ہم بہت سے امور پر بات کریں گے، ہم ایران میں حاصل کی گئی بڑی کامیابی پر بھی بات کریں گے اور غزہ پر بھی گفتگو کریں گے‘۔
حماس کا موٴقف:
حماس نے کہا ہے کہ وہ کسی بھی جنگ بندی معاہدے کے تحت غزہ میں باقی یرغمالیوں کو رہا کرنے کے لیے تیار ہے، تاہم اسرائیل کا مؤقف ہے کہ جنگ کا خاتمہ صرف اسی صورت میں ممکن ہے جب حماس کو غیر مسلح اور تحلیل کیا جائے۔ حماس نے ہتھیار ڈالنے سے انکار کر دیا ہے۔
یہ جنگ 7 اکتوبر 2023 کو اس وقت شروع ہوئی جب حماس کے جنگجوؤں نے اسرائیل پر حملہ کیا، جس میں اسرائیلی حکومت کے مطابق 1200 افراد ہلاک اور 251 یرغمال بنائے گئے۔
اب تک دونوں فریق اپنی ضد سے پیچھے ہٹنے کے لیے تیار نظر نہیں آ رہے۔
امریکا نے ایک 60 دن کی جنگ بندی کی تجویز دی ہے، جس کے تحت یرغمالیوں کے بدلے فلسطینی قیدیوں اور ہلاک ہونے والوں کی باقیات واپس کی جائیں گی۔
اسرائیلی وزیر خارجہ گدعون ساعر نے کہا کہ اسرائیل نے اس امریکی تجویز کو قبول کر لیا ہے اور اب فیصلہ حماس کو کرنا ہے۔
غزہ کی وزارت صحت کے مطابق 7 اکتوبر کے بعد اسرائیلی کارروائیوں میں 56,000 سے زائد فلسطینی مارے جا چکے ہیں۔ یہ حملے غزہ میں شدید بھوک، بے گھری اور انسانی بحران کا باعث بنے ہیں۔ اس پر عالمی عدالتوں میں اسرائیل کے خلاف نسل کشی اور جنگی جرائم کے الزامات لگے ہیں، جن کی اسرائیل تردید کرتا ہے۔