بلوچستان میں پنجاب سے تعلق رکھنے والے 9 مسافروں کو بسوں سے اتار کر قتل کر دیا گیا

09:5011/07/2025, Cuma
جنرل11/07/2025, Cuma
ویب ڈیسک
فائل فوٹو
فائل فوٹو

بلوچستان میں نامعلوم افراد نے پنجاب جانے والی دو بسوں سے شناخت کی بنیاد پر لوگوں کو اتار کر نو افراد کو قتل کر دیا ہے۔

یہ واقعہ جمعرات کی رات بلوچستان کے ضلع ژوب اور لورلائی کی سرحد پر واقع علاقے سُر دکئی میں پیش آیا ہے۔ ژوب کے اسسٹنٹ کمشنر نوید عالم کے مطابق مسلح افراد نے بسوں کو روکا اور نو افراد کو اتار کر لے گئے جن کی بعد ازاں گولیاں لگی لاشیں برآمد ہوئیں۔

حکام کے مطابق لاشوں کو پنجاب میں ان کے آبائی علاقوں تک پہنچانے کے انتظامات کیے جا رہے ہیں۔ نوید عالم کا کہنا ہے کہ ہلاک افراد بلوچستان میں مزدوری کرتے تھے اور اپنے گھروں کو لوٹ رہے تھے۔

ڈان اخبار کے مطابق واقعے کی ذمے داری کالعدم بلوچستان لبریشن فرنٹ نے قبول کر لی ہے جو بلوچستان میں سرگرم ایک علیحدگی پسند تنظیم ہے۔

بلوچستان کی حکومت کے ترجمان شاہد رند نے واقعے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ "فتنہ الہندوستان" نے تین مختلف مقامات پر حملے کیے ہیں۔ واضح رہے کہ بلوچستان میں دہشت گرد تنظیموں کو پاکستانی حکام "فتنہ الہندوستان" کہتے ہیں۔

ترجمان بلوچستان حکومت کے مطابق سُر دکئی کے علاوہ قلات اور مستونگ میں بھی حملے ہوئے ہیں۔ سیکیورٹی فورسز نے اس واقعے سے قبل دہشت گردوں کے تین حملوں کو ناکام بنایا ہے۔

ان کے بقول سُر دکئی سے کچھ مسافروں کو اغوا کرنے کی بھی اطلاعات ہیں جن کی بازیابی کے لیے سیکیورٹی فورسز نے آپریشن شروع کر دیا ہے۔

نیوز پلیٹ فارم خراسان ڈائری کے مطابق ہلاک افراد کا تعلق لاہور، گوجرانوالہ، گجرات، لودھراں، خانیوال، اٹک اور ڈیرہ غازی خان سے تھا۔

حکام کے مطابق ہلاک افراد میں دو بھائی بھی شامل ہیں جو اپنے والد کے جنازے میں شرکت کے لیے جا رہے تھے۔

’میں نے بتایا ہزارہ ہوں تو شناختی کارڈ چیک کر کے چھوڑ دیا‘

واقعے میں زندہ بچ جانے والے ایک شخص نے خراسان ڈائری کو بتایا کہ مسلح افراد اسے بھی بس سے اتار کر لے گئے تھے۔

"انہوں نے میرے سر پر گن رکھی۔ میں کانپ رہا تھا۔ اس نے مجھے دیکھ کر پوچھا کہ تم پنجابی ہو؟ میں نے کہا کہ میں ہزارہ ہوں۔ تو انہوں نے میرا شناختی کارڈ چیک کیا اور پھر مجھے چھوڑ دیا۔"

مذکورہ شخص کا کہنا تھا کہ مجھ سے آگے جو شخص تھا وہ لاہور سے تھا تو حملہ آوروں نے اسے لائن میں دوسرے لوگوں کے ساتھ کھڑا کر دیا تھا۔ اس کے بعد مجھے فائرنگ کی آواز آئی تو میں نے بھاگنا شروع کر دیا اور میں جتنی تیز بھاگ سکتا تھا، وہاں سے بھاگا۔

بس میں سوار ایک عینی شاہد نے لیویز کو بتایا کہ مسلح افراد نے سات افراد کو ایک بس سے اتارا اور تین کو دوسری سے اور انہیں نامعلوم مقام پر لے گئے۔ جب ہم نکلنے لگے تو ہمیں فائرنگ کی آواز آئی۔

سیکیورٹی فورسز نے واقعے کے بعد ہائی وے کو بند کر کے بڑے پیمانے پر سرچ آپریشن شروع کر دیا ہے۔

ترجمان بلوچستان حکومت نے کہا ہے کہ انڈیا ان دہشت گردوں کی پشت پناہی کر رہا ہے۔ انڈین وزارتِ خارجہ کی جانب سے اس معاملے پر فی الحال کوئی بیان نہیں آیا ہے۔

واضح رہے کہ بلوچستان میں مسافروں کو شناخت کی بنا پر قتل کرنے کے واقعات کئی برسوں سے جاری ہیں۔ مگر حالیہ کچھ مہینوں میں بلوچستان میں علیحدگی پسندوں کے حملوں میں تیزی آئی ہے اور وہ اکثر فوج کے ساتھ چائنیز شہریوں اور تنصیبات کو نشانہ بناتے ہیں۔

رواں سال مارچ میں شدت پسند تنظیم بلوچستان لبریشن آرمی (بی ایل اے) نے ایک ٹرین پر حملہ کر کے 31 افراد کو ہلاک کر دیا تھا جب کہ 400 مسافروں کو یرغمال بنا لیا تھا۔ اس سے قبل فروری میں بھی مسلح افراد نے بلوچستان کو ڈیرہ غازی خان سے ملانے والی شاہراہ پر مسافر بسوں سے پنجاب سے تعلق رکھنے والے سات مسافروں کو شناخت کر کے قتل کر دیا گیا۔


##بلوچستان
##پنجاب
##پاکستان