غزہ میں کمزور پڑتی حماس کو اندرونی بغاوت اور اتحادیوں کی غیر یقینی حمایت کا سامنا

13:1727/06/2025, Cuma
جنرل27/06/2025, Cuma
ویب ڈیسک
غزہ میں انسانی بحران شدت اختیار کر چکا ہے، جس کے باعث جنگ بندی کے لیے بین الاقوامی دباؤ بڑھ رہا ہے
تصویر : روئٹرز / فائل
غزہ میں انسانی بحران شدت اختیار کر چکا ہے، جس کے باعث جنگ بندی کے لیے بین الاقوامی دباؤ بڑھ رہا ہے

کمانڈرز کی کمی، سرنگوں کے نیٹ ورک کی بڑی حد تک تباہی اور ایران جیسے اتحادی کی غیر یقینی حمایت کی وجہ سے حماس غزہ میں اپنی بقا کی جنگ لڑ رہی ہے، جہاں اسے مقامی باغی قبیلوں اور اسرائیلی فوج کے مسلسل دباؤ کا سامنا ہے۔

خبر رساں ادارے روئٹرز کو حماس کے قریبی تین ذرائع نے بتایا کہ اسرائیل ان مخالف قبائل کی مدد کر رہا ہے، جس کی وجہ سے حماس کی طاقت مزید کمزور ہو رہی ہے۔ اس سب کے درمیان حماس کے جنگجو اب مرکزی قیادت سے رابطے میں نہیں اور صرف اس ہدایت پر عمل کر رہے ہیں کہ جب تک ممکن ہو، لڑتے رہیں۔

غزہ میں انسانی بحران شدت اختیار کر چکا ہے، جس کے باعث جنگ بندی کے لیے بین الاقوامی دباؤ بڑھ رہا ہے۔ ایسے میں حماس کو بھی لڑائی میں وقفے کی سخت ضرورت ہے، ایک ذریعے نے بتایا۔

حماس بھی چاہتی ہے کہ کچھ دیر کے لیے جنگ رک جائے تاکہ عام فلسطینیوں کو سکون ملے، جو حماس سے ناراض ہو رہے ہیں اور اس وقفے کے دوران حماس ان باغی عناصر، جیسے کچھ قبائل اور وہ لوگ جو امدادی سامان لوٹ رہے ہیں، کے خلاف کارروائی بھی کر سکے گی۔

روئٹرز نے 16 مختلف ذرائع سے بات کی، جن میں حماس کے قریبی افراد، اسرائیلی سیکیورٹی ذرائع اور سفارتکار شامل ہیں۔ ان تمام افراد کی باتوں سے یہ واضح ہوا کہ حماس اب بہت کمزور ہو چکی ہے، اگرچہ غزہ میں اس کی کچھ حد تک طاقت اور کارروائی کرنے کی صلاحیت باقی ہے، مگر اسے سخت چیلنجز کا سامنا ہے۔

اگرچہ حماس ابھی بھی حملے کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے لیکن مشرق وسطیٰ کے تین سفارتکاروں کے مطابق انٹیلیجنس رپورٹس بتاتی ہیں کہ حماس کا مرکزی کمانڈ اور کنٹرول سسٹم ختم ہو چکا ہے اور اب وہ صرف چھوٹے اور اچانک حملے کرنے کی پوزیشن میں ہے۔

ایک اسرائیلی فوجی افسر نے اندازہ ظاہر کیا کہ اسرائیل اب تک 20 ہزار یا اس سے زیادہ حماس جنگجو مار چکا ہے اور غزہ کی ساحلی کے نیچے بنائی گئی سینکڑوں میل لمبی سرنگیں تباہ یا ناکارہ بنا چکا ہے۔ گزشتہ 20 ماہ کی لڑائی میں غزہ کا بیشتر حصہ ملبے کا ڈھیر بن چکا ہے۔

ایک اسرائیلی سیکیورٹی ذرائع کے مطابق حماس کے جنگجوؤں کی اوسط عمر ہر گزرتے دن کے ساتھ کم ہوتی جا رہی ہے۔ اسرائیلی حکام کا کہنا ہے کہ حماس ان لاکھوں نوجوانوں میں سے جنگجو بھرتی کر رہی ہے جو غریب، بے روزگار اور بے گھر ہو چکے ہیں۔

حماس نے خود یہ ظاہر نہیں کیا کہ اس کے کتنے جنگجو مارے گئے ہیں۔

جب اس صورت حال پر تبصرے کے لیے سینئر حماس رہنما سمیع ابو زہری سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ گروپ اسرائیل کے ساتھ جنگ ختم کرنے کے کسی معاہدے پر کام کر رہا ہے، لیکن ’ہتھیار ڈالنا کوئی آپشن نہیں ہے‘۔

انہوں نے مزید کہا کہ حماس مذاکرات کے لیے پرعزم ہے اور ’تمام قیدیوں کو ایک ساتھ چھوڑنے کے لیے تیار ہے‘ لیکن اس کے لیے وہ چاہتی ہے کہ خونریزی بند ہو اور اسرائیلی فوج پیچھے ہٹے۔

حماس اب اُس گروپ کا سایہ بھی نہیں رہی جس نے 2023 میں اسرائیل پر حملہ کیا تھا، جس میں اسرائیلی اعداد و شمار کے مطابق 1,200 افراد ہلاک اور 253 کو یرغمال بنایا گیا تھا۔ غزہ کی صحت حکام کے مطابق، اسرائیلی حملوں میں اب تک 56,000 سے زائد فلسطینی مارے جا چکے ہیں۔

روئٹرز کے مطابق حماس کی وہ طاقتور قیادت نہیں رہی جو 2023 میں تھی جب اس نے اسرائیل پر بڑا حملہ کیا تھا جس میں اسرائیل کے مطابق 1200 افراد مارے گئے اور 253 کو یرغمال بنایا گیا تھا۔ اب اسرائیلی حملوں میں غزہ کے 56 ہزار سے زائد افراد مارے جا چکے ہیں۔

اسرائیل کی طرف سے کیا گیا نقصان حماس کی تاریخ میں سب سے تباہ کن ہے، جس میں غزہ میں اس کے زیادہ تر سینئر عسکری کمانڈر مارے جا چکے ہیں۔ 1987 میں قائم ہونے والی حماس نے آہستہ آہستہ صدر محمود عباس کی فتح پارٹی کے خلاف خود کو ایک بڑی سیاسی قوت کے طور پر منوایا اور 2007 میں غزہ پر مکمل کنٹرول حاصل کر لیا۔

ایران-اسرائیل جنگ میں امریکا کی ثالثی سے ہونے والی عارضی جنگ بندی قائم ہے اور اب دنیا کی توجہ دوبارہ غزہ پر کسی معاہدے کی جانب مبذول ہو گئی ہے، جس سے جنگ کا خاتمہ اور یرغمالیوں کی رہائی ممکن ہو سکے۔

حماس کے قریبی ایک ذرائع نے روئٹرز کو بتایا کہ حماس چند مہینوں کے لیے بھی جنگ بندی کا خیرمقدم کرے گی، تاکہ وہ ان مقامی قبیلوں سے نمٹ سکے جو موجودہ حالات میں طاقت حاصل کر رہے ہیں۔

تاہم ذرائع نے یہ بھی کہا کہ اسرائیلی وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو کی جنگ ختم کرنے کی شرائط دراصل حماس کی مکمل شکست کے مترادف ہوں گی اور حماس کبھی ہتھیار نہیں ڈالے گی۔

انہوں نے روئٹرز کے سوالات کے جواب میں لکھا کہ اگر جنگ نہ رکی تو حماس کو غزہ میں زمینی سطح پر مکمل طور پر ختم کر دیا جائے گا، لیکن اگر جنگ کسی سیاسی حل پر ختم ہوتی ہے، تو اُس میں بھی حماس کو اقتدار کے کسی فارمولے سے باہر رکھا جا سکتا ہے اگر ایسا کوئی حل ممکن ہوا۔‘

رپورٹ کے مطابق فلسطینی قبائل اب حماس کے خلاف اسرائیل کی حکمتِ عملی کا حصہ بن چکے ہیں۔ اسرائیلی وزیرِ اعظم بنیامین نیتن یاہو نے کھل کر کہا ہے کہ اسرائیل اُن قبائل کو اسلحہ فراہم کر رہا ہے جو حماس کے مخالف ہیں، تاہم انہوں نے یہ واضح نہیں کیا کہ کن قبائل کو یہ مدد دی جا رہی ہے۔

بیروت میں قائم کارنیگی مڈل ایسٹ سینٹر کے سینئر ریسرچر یزید صیغ نے کہا کہ حماس اب صرف اپنی بقا کی کوشش کر رہی ہے۔ یہ صرف عسکری لحاظ سے زندہ رہنے کا نہیں، بلکہ سب سے بڑھ کر سیاسی بقا کا چیلنج ہے۔











#حماس
#اسرائیل حماس جنگ
#مشرق وسطیٰ