
پاکستانی نیورو سائنٹسٹ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے حوالے سے امریکا میں جاری عدالتی کارروائی میں حکومتِ پاکستان نے فریق بننے یا قانونی مدد فراہم نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
یہ انکشاف پیر کے روز اسلام آباد ہائی کورٹ میں ہونے والی سماعت کے دوران سامنے آیا، جہاں جسٹس سردار اعجاز اسحاق خان نے وفاقی نمائندوں سے حکومت کے مؤقف کی وضاحت طلب کی۔
سماعت کے دوران ایڈیشنل اٹارنی جنرل، درخواست گزار کے وکیل عمران شفیق اور دیگر سرکاری اہلکاروں کے ہمراہ عدالت میں پیش ہوئے۔ انہوں نے عدالت کو آگاہ کیا کہ حکومت نے اس کیس میں مداخلت نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
جسٹس سردار اعجاز نے حکومتی فیصلے پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’یہ ایک آئینی عدالت ہے، حکومت یا اٹارنی جنرل کوئی بھی فیصلہ بغیر وجہ بتائے پیش نہیں کر سکتے۔‘
عدالت نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل کو ہدایت کی کہ وہ اس فیصلے کی تحریری وجوہات آئندہ سماعت تک جمع کرائیں، جو 4 جولائی کو مقرر ہے۔
اس حکومتی اقدام کو سینیٹر مشتاق احمد خان نے شدید تنقید کا نشانہ بنایا، جو کہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی کے لیے سرگرم آواز رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ’حکومت نے واضح طور پر ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی آواز بننے سے انکار کر دیا ہے۔ انہوں نے آئینی ذمہ داری اور ویانا کنونشن سمیت عالمی انسانی حقوق کے تقاضوں کو پورا نہیں کیا۔‘
سینیٹر مشتاق نے موجودہ حکومتی اتحاد کو بھی آڑے ہاتھوں لیا کہ ’یہ جعلی شہباز حکومت ڈاکٹر عافیہ کی رہائی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ وہ بے قصور ہے، حافظہ قرآن ہے اور اسے صرف 55 ہزار ڈالر کے عوض امریکا کے حوالے کیا گیا۔‘
انہوں نے 23 سالہ قید کے بعد ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی صحت سے متعلق بھی گہری تشویش کا اظہار کیا۔
انہوں نے کہا کہ ’ان کی حالت تشویشناک ہے۔‘ انہوں نے عدالت سے مطالبہ کیا کہ وہ اس بات کا جائزہ لے کہ حکومت کی پیش کردہ وجوہات قانونی طور پر درست ہیں یا محض احتساب سے بچنے کا بہانہ ہے۔
اہلِ خانہ کا طویل انتظار
ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو 2008 میں افغانستان سے گرفتار کیا گیا تھا۔ حکام نے دعویٰ کیا تھا کہ ان کے پاس بم بنانے کے مواد اور امریکا کے اہم مقامات کو نشانہ بنانے کے منصوبے تھے۔
تفتیش کے دوران مبینہ طور پر انہوں نے امریکی اہلکاروں پر فائرنگ کرنے کی کوشش کی، جس کی بنیاد پر انہیں اقدامِ قتل کے الزام میں سزا سنائی گئی۔
2010 میں نیویارک کی ایک فیڈرل جیوری نے انہیں اقدام قتل اور مسلح حملے کے الزامات میں مجرم قرار دیا۔
امریکی استغاثہ کے مطابق انہوں نے ایک ایم-4 رائفل اٹھا کر ایف بی آئی ایجنٹس اور فوجی اہلکاروں پر فائرنگ کی اور ’امریکا مردہ باد‘ کے نعرے لگائے۔ جوابی کارروائی میں وہ خود زخمی ہو گئیں۔
اس واقعے میں کوئی امریکی اہلکار زخمی نہیں ہوا تھا۔
تاہم ڈاکٹر عافیہ کے اہلِ خانہ کا مؤقف ہے کہ انہیں 2003 میں پاکستان میں اپنے تین بچوں کے ہمراہ دورے کے دوران اغوا کر کے خفیہ طور پر امریکی حکام کے حوالے کیا گیا تھا۔
افغان پولیس کے مطابق افغانستان کے شہر غزنی میں گرفتاری کے وقت ان کے قبضے سے سوڈیم سائنائیڈ اور ایسے نوٹس ملے تھے جن میں بڑے پیمانے پر جانی نقصان پہنچانے والے حملوں اور نیویارک کے اہم مقامات کا ذکر تھا۔ لیکن انہیں کبھی دہشت گردی کے الزامات کا سامنا نہیں کرنا پڑا اور ڈاکٹر عافیہ ان تمام الزامات کو مسترد کرتی ہیں۔
ڈاکٹر عافیہ کے تین بچے ہیں۔ ان میں سے دو ان کی بہن ڈاکٹر فوزیہ صدیقی کے ساتھ رہائش پذیر ہیں، جو ان کی رہائی کے لیے طویل عرصے سے سرگرم ہیں، جبکہ ایک بچہ تاحال لاپتہ ہے۔ ان کے تمام بچے اپنی ماں سے طویل جدائی کا شکار رہے ہیں۔
ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی قید پاکستان میں ایک نہایت حساس اور سیاسی نوعیت کا معاملہ بنی ہوئی ہے۔
گزشتہ سال وزیرِاعظم شہباز شریف نے اُس وقت کے امریکی صدر جو بائیڈن کو ایک خط لکھا تھا، جس میں انسانی ہمدردی کی بنیاد پر ڈاکٹر عافیہ کی رہائی کی اپیل کی گئی تھی۔
تاہم پاکستانی حکام اور انسانی حقوق کے کارکنوں کی بارہا اپیلوں کے باوجود، امریکا نے ان کی سزا اور سزا یافتہ حیثیت کے بارے میں اپنا مؤقف سختی سے برقرار رکھا ہے۔