روس یوکرین جنگ کے بعد دنیا میں کشیدگی اور پولرائزیشن میں اضافہ ہوا ہے اور حالیہ دنوں میں یہ کھلے عام تصادم کی شکل اختیار کر چکے ہیں۔ پہلے انڈیا اور پاکستان کے درمیان اور پھر اسرائیل اور ایران کے درمیان۔اگرچہ فی الحال انڈیا-پاکستان اور اسرائیل-ایران کے درمیان لڑائی تھم چکی ہے، لیکن یہ کہنا قبل از وقت ہو گا کہ یہ تنازعات مکمل طور پر ختم ہو گئے ہیں۔ ان میں سے کسی بھی معاملے میں کوئی حتمی معاہدہ سامنے نہیں آیا جو مستقل امن کی ضمانت دے سکے۔ جہاں تک روس اور یوکرین کی جنگ کا تعلق ہے، تو اس پر عالمی توجہ دن بدن کم ہوتی جارہی ہے، نہ کوئی جنگ بندی ہوئی ہے اور نہ ہی کوئی امن معاہدہ ہوا ہے۔
اگر امریکی خزانے کے بانڈز کے چارٹ پر نظر ڈالیں تو پتا چلتا ہے کہ جاپان پچھلے پندرہ سال سے تقریباً ایک ہی سطح پر اپنی سرمایہ کاری برقرار رکھے ہوئے ہے، جبکہ برطانیہ نے اپنی سرمایہ کاری دوگنی کر دی ہے۔ لیکن سب سے اہم نکتہ یہ ہے کہ چائنہ مسلسل امریکی بانڈز میں اپنی سرمایہ کاری کم کر رہا ہے۔
یہ مالیاتی اتار چڑھاؤ اس بات کا اشارہ ہو سکتا ہے کہ اگلا بڑا تناؤ معیشت کے محاذ پر ہو، خاص طور پر امریکہ اور چین کے درمیان۔
اسی رجحان کا تسلسل اس سال بھی نظر آ رہا ہے۔ چائنہ نے امریکا کو جو قرض دیا ہوا تھا، وہ پچھلے بیس سال میں سب سے کم ہو گیا ہے۔ دوسری طرف برطانیہ امریکا کے بانڈز زیادہ سے زیادہ خرید رہا ہے۔ یوں لگتا ہے جیسے چائنہ پیچھے ہٹ رہا ہے اور اس کی جگہ برطانیہ لے رہا ہے۔
یہ صورتحال چائنہ کی کسی بڑی حکمتِ عملی کا حصہ معلوم ہوتی ہے۔ وہ کیا کرنے والا ہے، یہ ابھی واضح نہیں، لیکن ایک بات صاف ہے: چائنہ کچھ بڑا کرنے کی تیاری کر رہا ہے۔
تقریباً 100 سال تک چائنہ مغربی ممالک (جیسے امریکہ، برطانیہ) کے ساتھ کھڑا رہا، خاص طور پر جاپان کے خلاف۔
چائنہ نے پہلی عالمی جنگ میں کوئی بڑا کردار ادا نہیں کیا، اگرچہ اس کی سرزمین پر جرمنی اور جاپان کے درمیان جھڑپیں ضرور ہوئیں۔ دوسری عالمی جنگ میں چائنہ نے جاپان کے خلاف مغرب کا ساتھ دیا۔ جاپان کی بڑھتی فوجی طاقت کے باوجود چائنہ نے آٹھ سال تک مزاحمت جاری رکھی۔ اس مزاحمت نے جاپان کو مجبور کیا کہ وہ اپنی مکمل فوجی طاقت سوویت یونین کے محاذ یا بحرالکاہل کی طرف نہ موڑ سکے۔
اسی مزاحمت کے باعث امریکا نے چائنہ کو ’چوتھا بڑا اتحادی‘ قرار دیا (امریکا، برطانیہ اور سوویت یونین کے ساتھ) اور جنگ کے بعد چائنہ کو اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل میں مستقل رکنیت ملی۔ یوں چائنہ ان چند ایشیائی ممالک میں سے ایک بن گیا جس نے جاپان سے براہِ راست جنگ لڑی اور بین الاقوامی سطح پر خود کو منوایا۔ لیکن اب حالات بدل گئے ہیں۔
اب وہی چائنہ اور جاپان جو ایک دوسرے کے مخالف تھے، اب ان کی پوزیشنیں الٹ گئی ہیں۔ دوسری طرف چائنہ کا رویہ بتا رہا ہے کہ وہ اب مغرب کا ساتھ چھوڑ کر کوئی نیا راستہ اپنا رہا ہے۔ اب جاپان مکمل طور پر امریکا اور مغربی دنیا کا اتحادی بن چکا ہے، جبکہ چائنہ کے رویے سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اپنا راستہ تبدیل کر چکا ہے۔ چائنہ کی طرف سے امریکی بانڈز کم کرنا اس کی پالیسی میں تبدیلی کا واضح ثبوت ہے۔ جیسے دوسری جنگِ عظیم میں امریکا اور سوویت یونین اتحادی تھے لیکن بعد میں دشمن بن گئے اور سرد جنگ شروع ہوئی، ویسی ہی ایک دراڑ اب امریکا اور چائنہ کے درمیان بنتی جا رہی ہے۔
نئے اتحاد اور تقسیم اب امریکی خزانے کے بانڈز کے ذریعے زیادہ نمایاں ہو رہے ہیں۔
چائنہ کو اچھی طرح معلوم ہے کہ وہ چاروں طرف سے گھرا ہوا ہے، لیکن کیا وہ براہِ راست جنگ چھیڑے گا؟
میری رائے میں امریکا اور سوویت یونین جیسی سرد جنگ دوبارہ شروع ہونے کے امکانات زیادہ ہیں۔ کیونکہ اگر امریکا اور چائنہ جیسے دو بڑے طاقتور ممالک آپس میں کھلی جنگ میں اُترے، تو یہ پوری دنیا کے لیے تباہی کا باعث بنے گا۔
ایسی جنگ میں سب ہاریں گے۔۔۔۔ کوئی نہیں جیتے گا۔
BIST کا نام اور لوگو "محفوظ ٹریڈ مارک سرٹیفکیٹ" کے تحت محفوظ ہیں اور بغیر اجازت کے استعمال، حوالہ یا تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔ BIST کے نام سے ظاہر کردہ معلومات کے تمام حقوق مکمل طور پر BIST کی ملکیت ہیں اور اسے دوبارہ شائع نہیں کیا جا سکتا۔ مارکیٹ کا ڈیٹا iDealdata Financial Technologies Inc کے ذریعے فراہم کیا جاتا ہے۔ BIST اسٹاک ڈیٹا میں 15 منٹ کی تاخیر ہوتی ہے۔