
اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین کے مطابق جون کے آغاز سے اب تک تقریباً 4 لاکھ 50 ہزار افغان شہری ایران سے واپس افغانستان آ چکے ہیں۔
افغان شہریوں کی ایران سے اپنے ملک واپسی اُس اعلان کے بعد ہوئی جس میں ایران نے قانونی دستاویز نہ رکھنے والے افغان شہریوں کو 6 جولائی تک ملک چھوڑنے کا حکم دیا تھا۔
مئی کے آخر میں ایران نے کہا تھا کہ جن افغان شہریوں کے پاس قانونی دستاویزات نہیں ہیں، وہ 6 جولائی تک ملک چھوڑ دیں۔ اس فیصلے سے تقریباً چار ملین افغان متاثر ہو سکتے تھے، کیونکہ ایران کے مطابق اس وقت ملک میں 60 لاکھ افغان مقیم ہیں۔
اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ ایران اور اسرائیل کے درمیان 12 روزہ کشیدگی کے دوران غیر ملکیوں کے خلاف کارروائیاں مزید تیز کر دی گئیں۔
جون کے وسط سے ایران-افغانستان سرحد پر افغان شہریوں کی واپسی میں تیزی آئی، اور بعض دنوں میں صوبہ ہرات کے علاقے اسلام قلعہ پر یومیہ 40 ہزار افراد کی آمد دیکھی گئی۔
اقوام متحدہ کے ترجمان نے بتایا کہ یکم جون سے 5 جولائی کے درمیان 4 لاکھ 49 ہزار 218 افغان شہری ایران سے واپس آئے، جبکہ سال 2024 کے آغاز سے اب تک یہ تعداد 9 لاکھ 6 ہزار 326 ہو چکی ہے۔
بہت سے افغان شہریوں نے بتایا کہ انہیں ایرانی حکام کی جانب سے دباؤ، گرفتاری اور زبردستی ملک بدر کیا گیا۔ کچھ لوگ جلدی نکلنے کی وجہ سے اپنا تھوڑا بہت جمع کیا گیا پیسہ بھی کھو بیٹھے۔
دوسری جانب امدادی تنظیموں کا کہنا ہے کہ بین الاقوامی امداد میں کمی کے باعث اس بحران سے نمٹنے میں شدید مشکلات پیش آ رہی ہیں۔
اقوام متحدہ، بین الاقوامی این جی اوز اور طالبان حکام نے واپس آنے والے افغان شہریوں کی مدد کے لیے مزید مالی امداد کی اپیل کی ہے۔
اقوام متحدہ نے خبردار کیا ہے کہ ایران سے افغان شہریوں کی بڑی تعداد میں واپسی افغانستان کو غیر مستحکم کر سکتی ہے، کیونکہ ملک پہلے ہی شدید غربت، بے روزگاری اور موسمیاتی بحران جیسے مسائل سے دوچار ہے۔
اقوام متحدہ نے ممالک سے اپیل کی ہے کہ وہ افغان شہریوں کو زبردستی واپس نہ بھیجیں بلکہ حالات کو دیکھتے ہوئے انسانی بنیادوں پر فیصلے کریں۔
ایران سے واپس آنے والے ایک افغان شہری نے بتایا کہ ’وہ (ایرانی حکام) ہمیں جاسوس سمجھتے تھے اور حقارت سے پیش آتے تھے۔‘
انہوں نے مزید بتایا کہ ’عام لوگوں سے لے کر پولیس اور حکومت تک، سب یہی کہتے تھے کہ ‘تم افغان ہمارے پہلے دشمن ہو‘۔
ایران کی حکومت کی ترجمان فاطمہ مهاجرانی نے گزشتہ ہفتے کہا کہ ’ہم نے ہمیشہ کوشش کی ہے کہ ہم مہمان نوازی کریں، لیکن قومی سلامتی ہماری ترجیح ہے اور غیر قانونی رہنے والوں کو واپس جانا ہی ہوگا۔‘
ایران اور اسرائیل کے درمیان 12 روزہ جنگ سے پہلے دونوں ممالک نے ایک دوسرے پر حملے کیے اور امریکہ نے بھی ایران کی یورینیم افزودگی کی تنصیبات پر حملہ کیا۔
ایرانی حکام پہلے ہی قومی سلامتی کے نام پر غیر ملکیوں، خاص طور پر افغان شہریوں، کے خلاف کارروائی کر رہے تھے، لیکن جنگ کے دوران یہ کارروائیاں مزید تیز ہو گئیں۔