
اگر ٹرمپ یہ انعام جیت جاتے ہیں تو وہ نوبیل امن انعام حاصل کرنے والے پانچویں امریکی صدر ہوں گے۔
اسرائیلی وزیرِاعظم بنیامن نیتن یاہو نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو نوبیل امن انعام کے لیے نامزد کیا ہے، جو دنیا کا سب سے بڑا بین الاقوامی اعزاز سمجھا جاتا ہے اور اُن افراد یا اداروں کو دیا جاتا ہے جنہوں نے اقوام کے درمیان دوستی اور ہم آہنگی کو فروغ دینے میں نمایاں کردار ادا کیا ہو۔
خبر رساں ادارے روئٹرز کی رپورٹ کے مطابق نیتن یاہو نے نوبیل کمیٹی کو لکھے گئے خط میں کہا کہ ٹرمپ نے دنیا بھر میں امن، سلامتی اور استحکام کو فروغ دینے کے لیے غیر معمولی عزم اور مستقل مزاجی کا مظاہرہ کیا ہے۔
واضح رہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ، جو اس وقت غزہ میں اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ بندی کی کوششیں کر رہے ہیں، اس سے قبل بھی نوبیل انعام کے لیے نامزد ہو چکے ہیں۔
جون میں پاکستان نے بھی کہا تھا کہ وہ انڈیا اور پاکستان کے درمیان تنازع کے حل میں کردار ادا کرنے پر ٹرمپ کو نوبیل انعام کے لیے نامزد کرنے کی سفارش کرے گا۔
نیتن یاہو کی جانب سے ٹرمپ کو نوبیل انعام کے لیے نامزد کیے جانے پر بعض لوگوں نے شک کا اظہار کیا اور تنقید بھی کی۔ سابق سویڈش وزیرِاعظم کارل بلدت نے ایکس پر کہا کہ نیتن یاہو دراصل ٹرمپ کو خوش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
اگر ٹرمپ یہ انعام جیت جاتے ہیں تو وہ نوبیل امن انعام حاصل کرنے والے پانچویں امریکی صدر ہوں گے۔ اس سے پہلے یہ اعزاز تھیوڈور روزویلٹ، ووڈرو ولسن، جمی کارٹر اور باراک اوباما کو مل چکا ہے۔
آئیے دیکھتے ہیں کہ نوبیل امن انعام کس طرح کام کرتا ہے:
کون لوگ نوبیل امن انعام کے لیے اہل ہوتے ہیں؟
سوئیڈش صنعت کار الفریڈ نوبیل (ڈائنامائٹ کے موجد) کی وصیت کے مطابق یہ انعام اُس شخص یا ادارے کو دیا جانا چاہیے ’جس نے اقوام کے درمیان دوستی کو فروغ دینے، افواج کے درمیان جنگ ختم کرنے کا کم کرنے اور دنیا میں امن قائم کرنے کی کوشش کی ہو۔‘ ایسے تمام زندہ افراد یا فعال ادارے نوبیل امن انعام کے لیے اہل ہوتے ہیں۔
نوبیل ویب سائٹ پر نوبیل امن انعام کمیٹی کے چیئر یورگن واٹنے فریڈنیس لکھتے ہیں کہ ’یہ انعام کسی کو بھی دیا جا سکتا ہے۔ دنیا کے کسی بھی کونے سے، کسی بھی شعبے سے تعلق رکھنے والے شخص کو۔‘
نوبیل انعام ہر سال اکتوبر میں دیا جاتا ہے، لیکن اس کے لیے نامزدگیاں جنوری میں بند ہو جاتی ہیں۔ اسی لیے نیتن یاہو کی جانب سے ڈونلڈ ٹرمپ کی نامزدگی اس سال کے لیے شامل نہیں کی جا سکتی۔
نوبیل انعام کے لیے کون لوگ نامزد کرسکتے ہیں؟
کچھ سے لوگ نوبیل امن انعام کے لیے کسی کو بھی نامزد کرنے کا حق رکھتے ہیں۔ ان میں حکومتوں اور پارلیمنٹ کے ارکان، موجودہ سربراہانِ مملکت، یونیورسٹی کے پروفیسرز (تاریخ، قانون، فلسفہ اور سماجی علوم کے)، اور پچھلے نوبیل انعام یافتہ شامل ہیں۔
تاہم کوئی شخص خود کو نامزد نہیں کر سکتا۔
نوبیل امن انعام کے لیے جن لوگوں کو نامزد کیا جاتا ہے، ان کے نام 50 سال تک خفیہ رکھے جاتے ہیں۔ لیکن جو شخص کسی کو نامزد کرتا ہے (مثلاً کوئی پروفیسر، وزیر یا سربراہِ مملکت)، وہ اگر چاہے تو یہ بات سب کو بتا سکتا ہے کہ اُس نے کس کو نامزد کیا ہے۔
نوبیل امن انعام کے جیتنے والے کا فیصلہ کون کرتا ہے؟
نوبیل امن انعام کا فیصلہ نارویجن نوبیل کمیٹی کرتی ہے، جو پانچ افراد پر مشتمل ہوتی ہے۔ ان افراد کو ناروے کی پارلیمنٹ نامزد کرتی ہے۔
عام طور پر یہ ارکان ریٹائرڈ سیاستدان ہوتے ہیں، لیکن یہ لازمی نہیں۔ موجودہ کمیٹی کی قیادت پین انٹرنیشنل نامی ادارے کے سربراہ کر رہے ہیں، جو اظہارِ رائے کی آزادی کا دفاع کرنے والا ایک بین الاقوامی ادارہ ہے۔
یہ تمام ارکان نارویجن سیاسی جماعتوں کی جانب سے تجویز کیے جاتے ہیں اور ان کی تقرری ناروے کی پارلیمنٹ میں سیاسی طاقت کے توازن کی عکاسی کرتی ہے۔
کمیٹی نوبیل امن انعام کا فیصلہ کیسے کرتی ہے؟
نوبیل امن انعام کمیٹی کا پہلا اجلاس ہر سال فروری میں ہوتا ہے، جس میں کمیٹی کے ارکان بھی اپنی طرف سے مزید نامزدگیاں تجویز کر سکتے ہیں۔ گزشتہ سال انعام کے لیے 286 امیدوار تھے۔ جبکہ 2025 میں 338 افراد یا اداروں کو نامزد کیا گیا ہے، جن میں 244 افراد اور 94 تنظیمیں شامل ہیں۔
کمیٹی پہلے ان تمام نامزدگیوں کو دیکھ کر ایک شارٹ لسٹ بناتی ہے۔ پھر ہر نامزد امیدوار یا ادارے کا جائزہ مستقل مشیروں اور ماہرین کی ٹیم کی مدد سے لیا جاتا ہے۔ کمیٹی کی کوشش ہوتی ہے کہ فیصلہ اتفاقِ رائے سے ہو، لیکن اگر ایسا نہ ہو سکے تو اکثریتی ووٹ سے بھی فیصلہ کیا جا سکتا ہے۔ اکثر اوقات حتمی فیصلہ انعام کے اعلان سے صرف چند دن پہلے کیا جاتا ہے۔
تنازعات
نوبیل امن انعام پر اکثر سیاسی پیغام دینے کا الزام لگتا رہا ہے۔ نوبیل کی آفیشل ویب سائٹ پر بھی تسلیم کیا گیا ہے کہ بعض انعام یافتہ افراد ’انتہائی متنازع سیاسی شخصیات‘ رہے ہیں۔
باراک اوباما کو یہ انعام صدارتی منصب سنبھالنے کے صرف چند ماہ بعد دے دیا گیا، جس پر کئی حلقوں نے حیرت اور تنقید کا اظہار کیا۔
1973 میں جب یہ انعام امریکی وزیر خارجہ ہنری کسنجر اور ویتنامی سیاستدان لی ڈک تھو کو ویتنام جنگ کے خاتمے پر مذاکرات کرنے پر دیا گیا، تو کمیٹی کے دو ارکان نے استعفیٰ دے دیا۔
1994 میں جب فلسطینی رہنما یاسر عرفات نے اسرائیلی رہنماؤں شمعون پیریز اور اسحاق رابین کے ساتھ یہ انعام مشترکہ طور پر جیتا، تو ایک رکن نے بطور احتجاج کمیٹی سے استعفیٰ دے دیا تھا۔