
گزشتہ سال پنجاب پولیس کی ایک رپورٹ بھی لیک ہوئی تھی جس میں انکشاف کیا گیا تھا کہ ایک مشتبہ گینگ لوگوں کو توہینِ مذہب کے مقدمات میں پھنسا رہا ہے جو مالی فوائد کے لیے بھی ہو سکتا ہے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ نے توہینِ مذہب کے مقدمات میں لوگوں کو پھنسانے کے الزامات کی تحقیقات کے لیے کمیشن بنانے کا حکم دے دیا ہے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج سردار اعجاز اسحاق خان نے منگل کو متاثرہ افراد کے اہلِ خانہ کی اپیلوں پر سماعت کے بعد فیصلہ سنایا کہ وفاقی حکومت توہینِ مذہب کے مقدمات کی تحقیقات کے لیے 30 دن کے اندر فیکٹ فائنڈنگ کمیشن بنائے جو چار ماہ میں انکوائری کر کے اپنی رپورٹ پیش کرے۔ عدالت نے کمیشن کی کارروائی لائیو نشر کرنے کا بھی حکم دیا ہے۔
اسلام آباد ہائیکورٹ نے اپنے حکم میں کہا ہے کہ اگر کمیشن مقررہ مدت تک اپنی تحقیقات مکمل نہ کر سکے اور مزید وقت درکار ہو تو ہائی کورٹ سے رجوع کیا جا سکتا ہے۔
واضح رہے کہ پاکستان میں 2022 سے ایسے کیسز میں اضافہ ہوا ہے جن میں نوجوانوں کو سوشل میڈیا پر توہینِ مذہب کرنے کے الزامات کے تحت گرفتار کیا گیا ہے۔
انسانی حقوق کی تنظیموں اور پولیس کا کہنا ہے کہ متعدد لوگوں پر پرائیویٹ لا فرمز کی طرف سے مقدمات بنوائے گئے ہیں جو انٹرنیٹ پر توہینِ مذہب کرنے والے لوگوں کو تلاش کر کے انہیں پکڑواتے ہیں۔
اکتوبر 2024 میں قومی کمیشن برائے انسانی حقوق نے ایک رپورٹ جاری کی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ توہینِ مذہب کے الزامات کے تحت 767 افراد جیلوں میں قید ہیں جن میں بیش تر نوجوان ہیں۔
گزشتہ سال پنجاب پولیس کی ایک رپورٹ بھی لیک ہوئی تھی جس میں انکشاف کیا گیا تھا کہ ایک مشتبہ گینگ لوگوں کو توہینِ مذہب کے مقدمات میں پھنسا رہا ہے جو مالی فوائد کے لیے بھی ہو سکتا ہے۔
بعد ازاں یہ رپورٹس بھی سامنے آئیں کہ ایسے کئی گروپس ہیں جو لوگوں پر توہینِ مذہب کے مقدمات بنواتے ہیں اور انہیں سزائیں دلاتے ہیں۔ ان میں سب سے بڑا گروپ لیگل کمیشن آن بلاسفیمی پاکستان ہے جس میں کچھ وکلا بھی شامل ہیں۔
اس گروپ کے کارکن سوشل میڈیا پر توہینِ مذہب کے واقعات کی نشان دہی کر کے لوگوں پر مقدمات بنواتے ہیں۔ لیگل کمیشن آن بلاسفیمی پاکستان کے ایک رکن نے گزشتہ سال اے ایف پی کو انٹرویو میں کہا تھا کہ "انہیں خدا نے اس مقدس کام کے لیے چنا ہے۔"
تاہم اس گروپ پر یہ الزامات بھی لگے ہیں کہ اس نے ایف آئی اے کے گٹھ جوڑ سے لوگوں کو دھوکہ دہی سے توہینِ مذہب کے مقدمات میں پھنسایا۔ اسے بلاسفیمی بزنس گروپ کا بھی نام دیا گیا۔ لیکن اس گروپ کے ممبران ان الزامات کی تردید کر چکے ہیں۔
اسلام آباد ہائی کورٹ نے اپنے حکم میں یہ بھی کہا ہے کہ کمیشن اس معاملے کو بھی دیکھے کہ کیا توہین مذہب کے مقدمات کرانے والوں کے ساتھ ایف آئی اے کا گٹھ جوڑ ہے۔ عدالت نے کہا ہے کہ سماعت کے دوران درخواست گزاروں کی جانب سے ایسے شواہد پیش کیے گئے جن میں ایف آئی اے اور کچھ افراد کے گٹھ جوڑ کے الزامات کو تقویت ملتی ہے۔
توہینِ مذہب کے مقدمات میں قید افراد کے اہلِ خانہ نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں معاملے پر کمیشن بنانے کے لیے پٹیشن دائر کی تھی جس پر کئی ہفتوں سے عدالت میں سماعت جاری تھی۔ 100 سے زیادہ درخواست گزاروں کا کہنا تھا کہ ان کے رشتہ داروں کے خلاف توہین مذہب کے مقدمات درج ہیں۔ ان میں سے متعدد کو ٹرائل کورٹ کی جانب سے سزائیں بھی سنائی جا چکی ہیں جن کے خلاف اپیلیں مختلف ہائی کورٹس میں زیرِ سماعت ہیں۔
توہینِ مذہب کے الزامات کا سامنا کرنے والے افراد کے اہلِ خانہ کی وکیل ایمان مزاری نے کہا ہے کہ یہ فیصلہ متاثرہ خاندانوں کے لیے امید کی کرن ہے کیوں کہ ان کی آواز پہلی بار سنی گئی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ نوجوانوں کو غلط طور پر ایسے کیسز میں پھنسایا گیا جو انتہائی حساس نوعیت کے ہیں اور جن کا داغ بریت کے بعد بھی ہمیشہ ملزم پر رہتا ہے۔
حالیہ کچھ برسوں میں متعدد افراد کو توہینِ مذہب کے الزامات میں سزائیں ہوئی ہیں جن میں سزائے موت بھی شامل ہیں۔ لیکن کسی سزائے موت پر عمل درآمد نہیں ہوا۔