
امریکی وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف بی آئی) نے پاکستان میں ایرانی سفیر رضا امیری سمیت دیگر دو ایرانی عہدیداروں کے نام کو ’انتہائی مطلوب افراد‘ کی فہرست میں شامل کردیے ہیں۔
پاکستان میں تعینات ایران کے سفیر رضا امیری مقدم کے علاوہ دو ایرانی شخصیات بھی شامل ہیں جن کی شناخت تقی دانشور اور غلام حسین محمدنیا کے ناموں سے ہوئی ہے۔

تقی دانشور ایران کی وزارت برائے انٹیلی جنس اینڈ سیکیورٹی کے سپائی آفیسر رہ چکے ہیں، جبکہ غلام حسین محمدنیا وزارت برائے انٹیلی جنس اینڈ سیکیورٹی کے سینئر نائب اور البانیہ میں سابق ایرانی سفیر تھے جنہیں 2018 میں ملک بدر کر دیا گیا تھا۔
ایف بی آئی نے کیا کہا؟
انہوں نے مزید کہا کہ ’باب لیونسن ممکنہ طور پر قید میں ہی کہیں دور ہلاک ہوگئے ہیں‘۔
اسٹیون جینسن کا کہنا تھا کہ ایف بی آئی اس معاملے میں ملوث ہر شخص کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کی کوششیں جاری رکھے گی۔
ایف بی آئی کے مطابق امیری مقدم، جنہیں احمد امیری نیا کے نام سے بھی جانا جاتا ہے، لیونسن کے اغوا کے وقت وزارت برائے انٹیلی جنس اینڈ سیکیورٹی کے آپریشنز یونٹ کے سربراہ تھے۔ یورپ میں تعینات وزارت برائے انٹیلی جنس اینڈ سیکیورٹی کے ایجنٹس تہران میں انہیں رپورٹ کرتے تھے۔
ایف بی آئی کا کہنا ہے کہ تہران میں حکام نے اس اغوا کا الزام پاکستان کے صوبہ بلوچستان میں سرگرم ایک شدت پسند گروہ پر ڈالنے کی کوشش کی۔
ایف بی آئی باب لیونسن کی تلاش، بازیابی اور واپسی سے متعلق معلومات فراہم کرنے والے کو 50 لاکھ ڈالر تک کا انعام دینے کی پیشکش کر رہی ہے۔
اس کے علاوہ امریکی محکمہ خارجہ کے ’ریوارڈز فار جسٹس‘ پروگرام کے تحت اس کیس سے متعلق معلومات دینے پر 2 کروڑ ڈالر تک انعام رکھا گیا ہے۔

رابرٹ لیونسن ایران میں کیا کررہے تھے؟
رابرٹ لیونسن 9 مارچ 2007 کو لاپتا ہوئے تھے جب ان کی ایرانی جزیرے کیش پر ایک ذرائع سے ملاقات طے تھی۔ دوسری جانب روئٹرز کے مطابق لیونسن سابق ایرانی صدر اکبر ہاشمی رفسنجانی سے منسلک مبینہ کرپشن سے متعلق معلومات حاصل کرنے کے لیے ایران کے زیرِ انتظام ایک جزیرے پر ملاقات کی غرض سے گئے تھے۔
کئی سالوں تک امریکی حکام صرف یہ کہتے رہے کہ لیونسن ایک نجی تفتیش پر خود سے کام کر رہے تھے۔ تاہم 2013 میں ایسوسی ایٹڈ پریس کی ایک تحقیق میں انکشاف ہوا کہ لیونسن کو سی آئی اے کے ان تجزیہ کاروں نے مشن پر بھیجا تھا جنہیں اس نوعیت کے آپریشن چلانے کا اختیار حاصل نہیں تھا۔
امریکی حکومت نے 2020 میں اعلان کیا تھا کہ لیونسن ایران کی تحویل میں رہتے ہوئے ہلاک ہو چکے ہیں۔ اُس وقت لیونسن کے اہلخانہ کا کہنا تھا کہ انہیں نہیں معلوم کہ ان کی میت کب یا آیا واپس ملے گی یا نہیں۔
مارچ 2025 میں امریکی محکمہ خزانہ اور محکمہ خارجہ نے ان تینوں ایرانی انٹیلی جنس افسران پر پابندیاں بھی عائد کی تھیں۔ اس سے قبل دسمبر 2020 میں بھی امریکہ دو دیگر ایرانی عہدیداروں پر پابندیاں عائد کر چکا ہے، جن پر رابرٹ لیونسن کی گمشدگی میں ملوث ہونے کا الزام تھا۔