
افغانستان کی طالبان حکومت نے اقوام متحدہ اور بین الاقوامی تنظیموں سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ پاکستان میں موجود افغان پناہ گزینوں کی باعزت واپسی کو یقینی بنائیں۔
گزشتہ دنوں پاکستان میں سینکڑوں افغان شہریوں کو اپنے سامان کے ہمراہ طورخم اور چمن بارڈرز عبور کرتے ہوئے دیکھا گیا، کیونکہ حکومت نے 31 مارچ سے ان افغان شہریوں کی واپسی کے دوسرے مرحلے پر عمل شروع کردیا ہے جو افغان افغان سٹیزن کارڈ ہولڈر ہیں۔ یہ کارڈ 2017 میں پاکستان اور افغان حکومت نے مشترکہ طور پر جاری کیا تھا۔
حکومت نے 2023 میں غیر قانونی طور پر مقیم افغان شہریوں کو وطن واپس بھیجنے کی کارروائی شروع کی تھی۔ پہلے مرحلے میں ان تمام افغان باشندوں کو واپس بھیجا گیا جو کسی قسم کی شناختی دستاویز نہیں رکھتے تھے۔
کابل نے پریس ریلیز میں کہا کہ طالبان عبوری حکومت کے قائم مقام وزیر اعظم، ملا محمد حسن آخند کی زیر صدارت ایک خصوصی اجلاس منعقد ہوا، جس میں اقوام متحدہ اور بین الاقوامی اداروں سے افغان پناہ گزینوں کی باعزت واپسی کے لیے کردار ادا کرنے کا مطالبہ کیا گیا۔
بیان کے مطابق کابینہ ارکان کے اس اجلاس میں پاکستان کے اقدامات کی شدید مذمت کرتے اسے بنیادی انسانی حقوق کے خلاف قرار دیا۔
بیان میں کہا گیا کہ ’افغان پناہ گزینوں کے ساتھ پاکستانی حکام کا شدہ اصولوں کے خلاف ہے۔ ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ پاکستان کے عوام، سیاسی جماعتیں اور بااثر شخصیات اس معاملے میں اپنے ہمسایہ ملک کے ساتھ ذمہ دارانہ رویہ اختیار کریں‘۔
پریس ریلیز کے مطابق اجلاس کے شرکاء نے خبردار کیا کہ ’افغان شہریوں کے ساتھ غیر مناسب اقدامات دونوں ممالک کے تعلقات کو نقصان پہنچا سکتے ہیں۔‘
دوسری جانب طالبان کی وزارت برائے امور مہاجرین نے ایک علیحدہ بیان میں ’پاکستان سے افغان پناہ گزینوں کی جبری بے دخلی کی شدید مذمت‘ کی ہے۔
’افغان طالبان نے پاکستان کے ساتھ تعاون نہ کیا تو سارے معاہدے ختم سمجھیں‘
افغانستان کے لیے پاکستان کے خصوصی سفیر محمد صادق خان نے خبردار کیا کہ اگر افغان طالبان حکومت نے افغانستان کی سرزمین سے پاکستان کو درپیش بڑھتے ہوئے سیکیورٹی خدشات پر عملدرآمد نہ کیا، تو ’افغانستان سے تمام معاہدے ختم سمجھے جائیں گے۔‘
پاکستانی حکام کا کہنا ہے کہ افغان طالبان نے شدت پسند تنظیموں کو پناہ دے رکھی ہے جو پاکستان پر حملوں پر ملوث ہے، تاہم کابل ان الزامات کی تردید کی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’ٹی ٹی پی (تحریک طالبان پاکستان) ایک بہت بڑا چیلنج ہے، جسے برداشت نہیں کیا جا سکتا کیونکہ ہمارے نوجوان، ہمارے بچے مررہے ہیں۔ ہمیں اس کا حل نکالنا ہوگا۔ افغانستان کو ہمارے ساتھ تعاون کرنا ہوگا۔ اگر وہ ہمارے ساتھ تعاون نہیں کرتے تو پھر سارے معاہدے ختم، کچھ بھی نہیں ہو سکتا۔ کسی بھی معاملے میں مزید پیش رفت نہیں ہوگی۔‘