
پاکستان کے صوبے بلوچستان کے ضلع قلات میں مسافر بس پر دہشت گرد حملے میں ہلاک ہونے والے تین افراد کی لاشوں کی شناخت ہو گئی ہے۔
صوبائی حکومت کے ترجمان شاہد رند کے مطابق حملہ بدھ کے روز ضلع قلات میں اُس وقت ہوا جب کراچی سے کوئٹہ جانے والی مسافر بس سیکیورٹی چیک پوسٹ کے قریب پہنچی۔
حملے میں 11 افراد زخمی ہوئے، جن میں سے تین کی حالت تشویشناک بتائی گئی ہے۔ حکام نے تصدیق کی ہے کہ بس میں اس وقت کوئی خاتون یا بچہ سوار نہیں تھا۔
لاشوں کو کراچی منتقل کیا جا رہا ہے، جہاں انہیں لیاقت آباد کے علاقے میں واقع الیاس گوٹھ قبرستان میں سپرد خاک کیا جائے گا۔
قلات کے مقامی پولیس افسر حبیب اللہ کے مطابق بس میں عام طور پر 40 سے 50 مسافر سوار ہوتے ہیں۔
واقعے کی ذمہ داری بلوچ لبریشن آرمی نے قبول کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔
’ہلاک ہونے والے تینوں افراد قوال تھے‘
واقعے میں ہلاک ہونے والے تین لوگ میں کراچی کے نوجوان قوال ماجد صابری گروپ کا حصہ تھے۔
ماجد صابری گروپ کے رکن سلیم صابری نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ کوئٹہ سے کسی نے قوالی کی محفل کی دعوت دی تھی، جس میں شرکت کرنے والے قوالوں کا گروپ کراچی سے کوئٹہ جا رہا تھا کہ راستے میں ان کی بس پر حملہ ہوا۔
سوشل میڈیا پر گردش کرنے والی ویڈیو میں قوال گروپ کے ایک رکن نے بتایا کہ وہ کوئٹہ میں ایک شادی کی تقریب میں پرفارم کرنے جا رہے تھے کہ حملہ ہو گیا۔ حملے میں اس کے تین بھائی جاں بحق ہو گئے۔
انہوں نے بتایا کہ ’ہماری کیا غلطی تھی؟ ہم تو صرف موسیقی کے ذریعے لوگوں کو خوش کرنے جا رہے تھے‘۔
بعد ازاں پولیس نے ہلاک ہونے والے تین افراد کی شناخت محمد احمد، ان کے بیٹے محمد رضا اور آصف کے طور پر کی۔
وزیرِاعظم شہباز شریف نے واقعے پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے جاں بحق افراد کے لواحقین سے تعزیت کی اور زخمیوں کو فوری طبی امداد فراہم کرنے کی ہدایت جاری کی۔
وزیر داخلہ محسن نقوی نے حملے کا الزام ’فتنہ الہندستان‘ پر عائد کرتے ہوئے کہا کہ یہ حملہ انڈیا کی پشت پناہی رکھنے والے دہشت گردوں کی کارروائی ہے۔ انڈیا ماضی میں بلوچستان میں بدامنی میں ملوث ہونے کے الزامات کی بار بار تردید کر چکا ہے۔
یہ واقعہ بلوچستان میں بڑھتی ہوئی پرتشدد کارروائیوں کے پس منظر میں پیش آیا ہے۔ رواں ماہ کے آغاز میں بھی ایک بس سے نو مسافروں کو اتار کر قتل کر دیا گیا تھا۔
بلوچستان لبریشن آرمی (بی ایل اے) سمیت شدت پسند تنظیمیں ماضی میں بسوں کو روک کر پنجابی شناخت رکھنے والے افراد کو نشانہ بناتی رہی ہیں۔ بی ایل اے، جسے پاکستان دہشت گرد تنظیم قرار دیتا ہے، اس نوعیت کے کئی حملوں کی ذمہ داری قبول کر چکی ہے۔
بلوچستان طویل عرصے سے علیحدگی پسند تحریک کا شکار ہے۔ بلوچ عسکریت پسند وفاقی حکومت پر قدرتی وسائل کا استحصال کرنے اور مقامی آبادی کو نظرانداز کرنے کا الزام لگاتے ہیں۔
علاقے میں متعدد فوجی آپریشنز کے باوجود سیکیورٹی فورسز اور عام شہریوں پر حملے بدستور جاری ہیں، جس کے باعث صورتحال بدستور کشیدہ اور غیر مستحکم ہے۔