
اسرائیل کے حملوں کے نتیجے میں ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کے اہم اور قریبی ساتھی مارے جا رہے ہیں۔
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق ماہرین کہتے ہیں کہ ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای اب پہلے سے کہیں زیادہ تنہا ہوگئے ہیں۔
اسرائیلی فضائی حملوں میں ان کے اہم فوجی اور سیکیورٹی مشیر مارے جا چکے ہیں، جس سے ان کے قریبی مشاورتی دائرے میں بڑا خلا پیدا ہوگیا ہے اور اس سے اسٹریٹجک غلطیوں کا خطرہ بڑھ گیا ہے۔
روئٹرز نے بتایا کہ دفاعی امور اور اندرونی استحکام سے متعلق غلط فیصلوں کا خدشہ ایران کے لیے ’انتہائی خطرناک‘ ثابت ہو سکتا ہے۔
مارے جانے والے اہم شخصیات میں شامل ہیں:
حسین سلامی: پاسداران انقلاب کے کمانڈر
امیر علی حاجی زادہ: ایرو اسپیس چیف اور ایران کے بیلسٹک میزائل پروگرام کے سربراہ
محمد کاظمی: انٹیلیجنس چیف
یہ تینوں خامنہ ای کے ان 15 سے 20 قریبی مشیروں میں شامل تھے جن پر وہ اہم فیصلوں میں بھروسہ کرتے ہیں۔
ذرائع کے مطابق خامنہ ای تمام اہم فیصلے خود کرتے ہیں، لیکن وہ مشورہ لینے کے عمل کو اہمیت دیتے ہیں، مختلف رائے غور سے سنتے ہیں اور اکثر اضافی معلومات بھی طلب کرتے ہیں۔
ذرائع کے مطابق اگرچہ اسرائیلی حملوں میں خامنہ ای کے کچھ قریبی مشیر مارے گئے ہیں، لیکن ان کے دیگر قریبی افراد جو اب تک محفوظ ہیں، اب بھی بااثر اور اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔
خامنہ ای مختلف امور کو سنبھالنے کے لیے اپنے مشیروں کو ذمے داریاں سونپتے ہیں اور اس طرح وہ فوج، سیکیورٹی، ثقافت، سیاست اور معیشت سمیت مختلف اداروں میں براہ راست اپنا اثر قائم رکھتے ہیں۔
ذرائع کے مطابق ان کے بیٹے مجتبی خامنہ ای پچھلے 20 برسوں میں اس پورے عمل میں اہم حیثیت حاصل کر چکے ہیں۔ وہ مختلف شخصیات، دھڑوں اور اداروں کے درمیان ہم آہنگی پیدا کرنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔
کچھ باخبر لوگوں کے مطابق آیت اللہ خامنہ ای کے بیٹے مجتبی کو بعض لوگ ان کے ضعیف ہونے کی وجہ سے آئندہ سپریم لیڈر کے طور پر دیکھتے ہیں۔ مجتبی کا پاسدارانِ انقلاب سے قریبی تعلق ہے، جس کی وجہ سے ان کا اثر اور طاقت اور بھی بڑھ گئی ہے۔
آیت اللہ خامنہ ای کون ہیں؟
آیت اللہ علی خامنہ ای کی عمر 86 سال ہے، وہ سنہ 1989 سے ایران کے سپریم لیڈر ہیں۔
اس عہدے پر وہ حکومت، فوج اور عدلیہ سمیت ایران کے تمام اداروں کے سربراہ ہیں۔ گزشتہ 40 سال میں انہوں نے ایران کو ایک ایسا طاقتور ملک بنایا جو خلیج کے سنی ممالک، امریکا اور اسرائیل کا سخت مخالف ہے، جبکہ ملک کے اندر ہونے والی متعدد تحریکوں کو سختی سے دبایا۔
جب وہ 1989 میں پاسداران انقلاب کے بانی آیت اللہ روح اللہ خمینی کے بعد سپریم لیڈر بنے تو انہیں کمزور اور غیر موزوں سمجھا گیا، لیکن وقت کے ساتھ وہ ایران کے سب سے طاقتور اور آخری فیصلہ کرنے والے رہنما بن گئے۔
انہوں نے مختلف صدور کو پیچھے چھوڑ کر ملک پر اپنی گرفت مضبوط کی، اور ایران کے جوہری پروگرام کو آگے بڑھایا، جس سے خطے میں تشویش پیدا ہوئی۔
ان کی قیادت ایک طرف سخت مذہبی نظریات کے حامی ہیں اور دوسری طرف موقع کے حساب سے سمجھداری سے فیصلے بھی کرتے ہیں۔
انہیں مغرب، خاص طور پر امریکا پر گہرا شک ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ امریکا ایران میں حکومت کی تبدیلی چاہتا ہے۔
لیکن 7 اکتوبر 2023 کو تہران کے حمایت یافتہ حماس کے اسرائیل پر حملے کے بعد سے خامنہ ای کی علاقائی طاقت کمزور ہونا شروع ہو گئی ہے۔
اسرائیل نے ایران کے حمایتی گروہوں جیسے غزہ میں حماس، لبنان میں حزب اللہ، یمن میں حوثی باغیوں اور عراق کی ملیشیاؤں کو نشانہ بنایا۔
ساتھ ہی ایران کا قریبی اتحادی، بشار الاسد کی حکومت بھی ختم ہو چکی ہے، جو خامنہ ای کے لیے ایک بڑا دھچکا ہے۔