
امریکہ کی جانب سے ایران کے تین اہم جوہری مراکز پر حملے کے چند روز بعد یہ بات سامنے آئی ہے کہ 60 فیصد افزودہ یورینیم کی تقریباً 400 کلوگرام مقدار، جو ایران کے سرکاری طور پر اعلان کردہ تنصیبات میں محفوظ تھی، اب غائب ہے۔
اگرچہ امریکی حکام نے فوری طور پر دعویٰ کیا کہ اُنہوں نے ایران کی جوہری صلاحیت کو محدود کر دیا ہے، لیکن بین الاقوامی مبصرین اور خطے کے تجزیہ کاروں کو شبہ ہے کہ حساس ترین مواد کو ممکنہ طور پر 22 جون کے فضائی حملوں سے پہلے کسی اور جگہ منتقل کر دیا گیا تھا۔
اگر یہ سچ ہے تو پھر سوال اٹھتے ہیں کہ یہ حملے کتنے مؤثر تھے اور امریکہ نے جو اندازے لگائے تھے، وہ درست تھے یا نہیں۔
امریکی حملوں سے چند دن پہلے لی گئی سیٹلائٹ تصاویر میں ایران کی فردو جوہری تنصیب کے قریب غیر معمولی سرگرمیاں نظر آئیں۔ یہ تنصیب زیر زمین ہے اور اسے ایران کی سب سے محفوظ جگہوں میں سے ایک سمجھا جاتا ہے۔
سیٹلائٹ کمپنی میکسر کے مطابق جمعرات کو 16 ٹرک فردو کی سرنگ کے داخلی راستے کے قریب کھڑے تھے، لیکن اگلے دن وہ ٹرک تقریباً ایک کلومیٹر دور تھے۔
جمعے کو، یعنی حملے سے دو دن پہلے، وہاں نئے ٹرک اور کئی بلڈوزر بھی پہنچ چکے تھے۔ ایک ٹرک سرنگ کے بالکل سامنے کھڑا تھا۔
اس سرگرمی کی نوعیت ابھی تک واضح نہیں ہو سکی۔
تاہم ایران کے سرکاری ریڈیو و ٹی وی نیٹ ورک اسلامی جمہوریہ ایران براڈکاسٹنگ نے اتوار کو رپورٹ کیا کہ حملے سے پہلے ان تنصیبات کو خالی کر دیا گیا تھا اور حساس جوہری مواد کو محفوظ جگہوں پر منتقل کر دیا گیا، مگر اس کی تفصیل نہیں دی گئی۔
تینوں نشانہ بننے والی تنصیبات، فردو، نطنز اور اصفہان، پر حملے کے لیے زیرِ زمین بنکر تباہ کرنے والے بموں اور کروز میزائلوں کا استعمال کیا گیا۔
امریکی دعوے اور تضاد
امریکی نائب صدر جے ڈی وینس نے اتوار کے روز کہا کہ امریکہ کے حملوں کا مقصد ایران کے جوہری نظام کو تباہ کرنا تھا، لیکن انہوں نے یہ تصدیق نہیں کی کہ تمام نظام مکمل طور پر تباہ ہو گیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ایران کا جوہری پروگرام ’کئی دہائیوں پیچھے چلا گیا ہے۔‘
انہوں نے یہ بھی کہا کہ ’ایران آج جوہری ہتھیاروں کے پروگرام سے اتنا دور ہے جتنا وہ گزشتہ 24 گھنٹوں میں کبھی نہیں تھا۔‘
ادھر بین الاقوامی جوہری توانائی ایجنسی کے ڈائریکٹر جنرل رافیل گروسی نے تصدیق کی کہ ان کی ٹیم نے جوہری مواد کا آخری بار مشاہدہ 10 سے 13 جون کے درمیان کیا تھا، یعنی امریکی حملوں سے کئی دن پہلے۔
اس کے بعد سے ایران کی تنصیبات تک رسائی بند ہے اور ایجنسی نے تہران سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ یورینیم کی موجودہ جگہ کے بارے میں معلومات فراہم کرے۔
ویانا میں ایک اجلاس کے دوران گروسی نے ایران سے اپیل کی کہ وہ آئی اے ای اے سے تعاون کرے اور معائنہ کاروں کو یقین دہانی کرائے کہ حساس مواد ابھی بھی بین الاقوامی حفاظتی نگرانی میں ہے۔
لیکن کچھ عالمی رہنماؤں، بشمول روسی وزیر خارجہ سرگئی لاوروف، نے آئی اے ای اے کے رویے پر تنقید کی ہے۔
لاوروف نے کہا کہ آئی اے ای اے یہ تاثر دے رہا ہے کہ ایران کچھ چھپا رہا ہے، صرف اس لیے کہ جوہری مواد دکھائی نہیں دے رہا۔
انہوں نے مزید کہا کہ ’اب ادارہ ایران سے کہہ رہا ہے کہ بتاؤ مواد کہاں ہے؟ لیکن اس بات کی کوئی گارنٹی نہیں کہ اتنی اہم معلومات کہیں لیک نہ ہو جائیں۔‘
ایران نے یہ یورینیم کیسے منتقل کیا ہو گا؟
400 کلوگرام 60 فیصد افزودہ یورینیم کو منتقل کرنا مشکل کام ضرور ہے، لیکن ناممکن نہیں۔ یہ مواد عام طور پر بھاری اسٹیل کے سلنڈرز میں محفوظ ہوتا ہے اور سخت سیکیورٹی کے تحت زمینی راستے سے منتقل کیا جا سکتا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ ایران کو نگرانی سے بچنے کا کئی دہائیوں کا تجربہ ہے اور اس کے پاس زیرِ زمین سرنگوں اور محفوظ بنکروں کا بڑا نیٹ ورک موجود ہے، اس لیے ایسا کرنا ممکن ہے۔
کچھ ماہرین کا خیال ہے کہ فردو کے قریب نظر آنے والا ٹرکوں کا قافلہ اسی منتقلی کا حصہ ہو سکتا ہے۔ جبکہ کچھ کا ماننا ہے کہ یہ مواد چھوٹے چھوٹے حصوں میں، بار بار منتقل کیا گیا ہوگا۔
ابھی تک یہ بات واضح نہیں ہو سکی کہ یہ یورینیم کسی اور مضبوط اور محفوظ تنصیب میں منتقل کر دیا گیا ہے، زیرِ زمین دفن کر دیا گیا ہے یا مختلف جگہوں پر چھپا دیا گیا ہے۔
چونکہ آئی اے ای اے کو ایران کی ان تنصیبات تک رسائی حاصل نہیں، اس لیے وہ ان میں سے کسی بھی امکان کی تصدیق نہیں کر سکتا۔
کامیابی یا صرف دعویٰ؟
اگرچہ واشنگٹن نے ان حملوں کو بڑی کامیابی قرار دیا، لیکن ایران کے سب سے حساس جوہری مواد کا غائب ہونا اس بیانیے پر سوال اٹھاتا ہے۔
تنصیبات کو نقصان ضرور پہنچا ہوگا، لیکن ایران کی افزودگی کی اصل طاقت اس کی یورینیم کا ذخیرہ اور سینٹری فیوج ٹیکنالوجی کو محفوظ رکھنے کی صلاحیت سے جڑی ہے۔
اتوار کو ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای کے ایک سینئر مشیر علی شمخانی نے تصدیق کی کہ امریکی حملوں کے باوجود ایران کا افزودہ یورینیم کا ذخیرہ محفوظ ہے۔
انہوں نے ایکس (سابقہ ٹوئٹر) پر لکھا کہ ’چاہے جوہری تنصیبات تباہ ہو جائیں، کھیل ختم نہیں ہوتا، افزودہ مواد، مقامی مہارت اور سیاسی عزم باقی رہتے ہیں۔‘
ایران کی جانب سے آئی اے ای اے کو رسائی نہ دینا اور مواد کی جگہ ظاہر نہ کرنا واضح اشارہ ہے کہ وہ اپنے جوہری پروگرام پر مکمل کنٹرول رکھنا چاہتا ہے، چاہے فوجی دباؤ ہی کیوں نہ ہو۔
چاہے یہ مواد زیرِ زمین چھپا ہو یا بس نظروں سے دور، حقیقت یہ ہے کہ ایران کا سب سے افزودہ یورینیم اعلان کردہ جگہوں پر موجود نہیں اور کسی کو نہیں معلوم کہ وہ کہاں ہے۔