ایران، اسرائیل اور ’ڈیپ اسٹیٹ‘ کے بیچ الجھا امریکہ

06:3926/06/2025, Perşembe
جنرل26/06/2025, Perşembe
عبداللہ مُراد اوغلو

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے پہلے دورِ حکومت میں کیے گئے وعدے پورے نہ ہونے کا الزام ’ڈیپ اسٹیٹ‘ پر عائد کیا۔ یہ اصطلاح ایسے خفیہ بیوروکریٹس اور سیاسی اشرافیہ کے گروہ کے لیے استعمال ہوتی ہے جو اپنی مرضی سے پالیسیاں بناتے ہیں اور غیرمعمولی اثر و رسوخ رکھتے ہیں۔ ٹرمپ کے حامیوں کے مطابق ’ڈیپ اسٹیٹ‘ ہی وہ طاقت ہے جو امریکا کو مہنگی اور طویل جنگوں میں دھکیلتی رہی ہے، جن پر کھربوں ڈالر خرچ ہوئے اور ہزاروں جانیں ضائع ہوئیں۔ یوں ان کے نزدیک امریکا کے تمام بڑے مسائل کی جڑ یہی ’ڈیپ اسٹیٹ‘ ہے۔ اپنی دوسری مدتِ

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے پہلے دورِ حکومت میں کیے گئے وعدے پورے نہ ہونے کا الزام ’ڈیپ اسٹیٹ‘ پر عائد کیا۔ یہ اصطلاح ایسے خفیہ بیوروکریٹس اور سیاسی اشرافیہ کے گروہ کے لیے استعمال ہوتی ہے جو اپنی مرضی سے پالیسیاں بناتے ہیں اور غیرمعمولی اثر و رسوخ رکھتے ہیں۔ ٹرمپ کے حامیوں کے مطابق ’ڈیپ اسٹیٹ‘ ہی وہ طاقت ہے جو امریکا کو مہنگی اور طویل جنگوں میں دھکیلتی رہی ہے، جن پر کھربوں ڈالر خرچ ہوئے اور ہزاروں جانیں ضائع ہوئیں۔ یوں ان کے نزدیک امریکا کے تمام بڑے مسائل کی جڑ یہی ’ڈیپ اسٹیٹ‘ ہے۔

اپنی دوسری مدتِ صدارت کی انتخابی مہم کے دوران ٹرمپ نے بارہا وعدہ کیا کہ وہ وفاقی حکومت کو ڈیپ اسٹیٹ کے اثر سے پاک کریں گے۔ اس مقصد کے لیے اُن کے ایک نمایاں اقدام میں تولسی گیبارڈ کو، جو ڈیموکریٹک پارٹی چھوڑ کر ریپبلکن کیمپ میں شامل ہو چکی تھیں، نیشنل انٹیلی جنس کی ڈائریکٹر مقرر کرنا شامل تھا۔

مارچ میں کانگریس کو دی گئی ایک معمول کی انٹیلیجنس بریفنگ میں تولسی گیبارڈ نے رپورٹ کیا کہ ایران جوہری ہتھیار بنانے کی سرگرمی میں ملوث نہیں ہے۔ تاہم جب صدر ٹرمپ کینیڈا میں منعقدہ جی-7 سربراہی اجلاس سے واپس آئے اور ان سے اس بارے میں سوال کیا گیا تو انہوں نے تلخ انداز میں کہا کہ ’مجھے پروا نہیں کہ اُس نے کیا کہا، ایران بم بنانے کے بہت قریب تھے۔‘

مجھے نہیں لگتا کہ ٹرمپ خود بھی اپنی باتوں پر یقین رکھتے ہیں، بلکہ شاید وہ یہ بیانیہ اس لیے بنا رہے ہیں تاکہ اگر امریکا اسرائیل کی جنگ میں براہِ راست شامل ہو جائے تو اس کا جواز پیش کیا جا سکے۔

ایسا ہی ایک بہانہ 2003 میں عراق پر حملے کے وقت بھی استعمال کیا گیا تھا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ 2016 کے انتخابات سے پہلے ٹرمپ نے خود اس وقت کی بُش انتظامیہ پر الزام لگایا تھا کہ انہوں نے امریکی عوام سے جھوٹ بولا۔ ٹرمپ نے کہا تھا کہ ’وہ (بُش) کہتے ہیں کہ وہاں تباہی پھیلانے والے ہتھیار ہیں، مگر وہاں کچھ بھی نہیں تھا اور وہ جانتے تھے کہ کچھ نہیں ہے۔‘

اس بیان پر قدامت پسند تجزیہ کار مارک لیوِن نے سخت ردِعمل دیا، اور ٹرمپ کو ’پاگل انتہا پسند‘ اور ’جھوٹا‘ قرار دیا اور دعویٰ کیا کہ ٹرمپ نے حد پار کر دی ہے۔ اب وہی مارک لیوِن، جو کبھی ٹرمپ کو ’جھوٹا‘ کہہ چکے تھے، آجکل ٹرمپ کے کان میں سرگوشیاں کر رہے ہیں کہ ’ایران پر بمباری کرو، ایران پر بمباری کرو، ایران پر بمباری کرو۔‘ دوسری طرف قدامت پسند تجزیہ کار ٹَکَر کارلسن ہیں، جنہوں نے خبردار کیا ہے کہ لیوِن امریکا کو ایک اور جنگ میں دھکیلنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ایران سے جنگ کے مسئلے پر ٹرمپ کے قریبی ساتھیوں کے درمیان اختلاف ہیں جس کی ایک واضح مثال مارک لیوِن اور ٹَکَر کارلسن کے الگ الگ مؤقف ہیں۔

گزشتہ مئی میں ریاض (سعودی عرب) میں ایک تقریر کے دوران ٹرمپ نے نیوکانز (جنگ پسند قدامت پسندوں) کو تنقید کا نشانہ بنایا۔ وہ اُن کے طریقۂ کار کو بخوبی سمجھتے ہیں۔ جب تہران کے ساتھ مذاکرات جاری تھے، ٹرمپ نے اسرائیل کو ایران پر حملے کی اجازت دی تاہم ٹرمپ نے خود فوری طور پر کوئی سخت ردعمل ظاہر نہیں کیا بلکہ فیصلہ کیا کہ وہ زمینی حالات کو دیکھ کر ہی کوئی قدم اٹھائیں گے۔ اُن کا حالیہ اقدام، ایران کو دو ہفتے کی مہلت دینا کہ وہ معاہدہ کرے، بظاہر اسی پالیسی کی تصدیق کرتا ہے۔

1939 میں ونسٹن چرچل نے روس کو یوں بیان کیا تھا کہ ’ایک پہیلی، جو ایک راز میں لپٹی ہوئی ہے اور وہ راز بھی ایک معمہ کے اندر چھپا ہے۔‘

ٹرمپ کے متضاد بیانات مجھے اسی قول کی یاد دلاتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ موجودہ صورتحال کی بہت بڑی ذمہ داری خود ٹرمپ پر عائد ہوتی ہے۔ جب انہوں نے 2015 کے ایران جوہری معاہدے، جس پر سابق صدر اوباما نے دستخط کیے تھے، سے امریکا کو باہر نکالا، تو انہوں نے دراصل مسائل کا پنڈورا باکس کھول دیا۔انہوں نے یہ قدم اپنے صہیونی ارب پتی ڈونرز کو خوش کرنے کے لیے اٹھایا۔

اب ’نیتن یاہو لابی‘ ٹرمپ پر دباؤ ڈال رہی ہے تاکہ وہ ایران کے ساتھ ممکنہ معاہدے کو سبوتاژ کر دیں۔ یہ لابی بھرپور مہم چلا رہی ہے تاکہ ٹرمپ کو قائل کیا جا سکے کہ ایران کے جوہری ٹھکانوں کو ختم کرنے کا واحد راستہ امریکی بمباری ہے۔ مگر کچھ ماہرین کا کہنا ہے کہ حتیٰ کہ امریکی فوجی طاقت بھی یہ ہدف مکمل طور پر حاصل نہیں کر سکتی اور الٹا یہ کارروائی زمینی جنگ چھیڑ سکتی ہے، جو پورے خطے یا حتیٰ کہ دنیا کو ایک بڑے تنازع میں دھکیل سکتی ہے۔

نیتن یاہو کا ہدف یہ ہے کہ پہلا حملہ امریکا کرے۔ کیونکہ وہ جانتا ہے کہ اس کے بعد کیا ہوگا۔ وہ پہلا بم ٹرمپ کی ’امریکا فرسٹ‘ پالیسی کا خاتمہ ہو گا اور ایک نئے باب کا آغاز ہو گا جس میں امریکی عوام ایک ایسی جنگ میں گھسیٹ لیے جائیں گے جو ان کے مفاد میں نہیں بلکہ اسرائیل کے مفاد میں ہو گی۔اب تاریخ ٹرمپ کو کس نظر سے دیکھے گی، یہ ان کے اگلے فیصلوں پر منحصر ہے۔

کیا وہ ’جنگوں کا خاتمہ کرنے والا صدر‘ کہلائیں گے یا ایک اور جنگ کا زنجیر میں اضافہ کرنے والے؟ ٹرمپ، جو کبھی نوبل امن انعام جیتنے کے خواب دیکھتے تھے، شاید اب اسرائیل سے ایک مختلف ’انعام‘ حاصل کریں: ’جنگ، تباہی اور بربادی کا انعام‘ اور یوں ’امریکا فرسٹ‘ کی کہانی شاید خود امریکا کے لیے ہی ایک تباہی کی ابتدا ثابت ہو۔







#ایران اسرائیل جنگ
#امریکا
#مشرق وسطیٰ