او آئی سی وزرائے خارجہ اجلاس استنبول میں، مسلمان ممالک کے اتحاد پر زور

03:2621/06/2025, ہفتہ
جنرل21/06/2025, ہفتہ
AA
1.7 ارب مسلمانوں کی نمائندگی کرنے والی یہ تنظیم دنیا کی تقریباً ایک چوتھائی آبادی کی نمائندگی کرتی ہے۔
تصویر : نیوز ایجنسی / انادولو
1.7 ارب مسلمانوں کی نمائندگی کرنے والی یہ تنظیم دنیا کی تقریباً ایک چوتھائی آبادی کی نمائندگی کرتی ہے۔

اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) کے وزرائے خارجہ کا 51واں اجلاس ترک وزیر خارجہ حکان فدان کی میزبانی میں استنبول میں لطفی کردار بین الاقوامی کانفرنس سینٹر میں شروع ہو گیا ہے۔

او آئی سی 1969 میں مسجد اقصیٰ کو نذر آتش کیے جانے کے واقعے کے بعد عالمِ اسلام میں پیدا ہونے والے شدید ردعمل کے نتیجے میں قائم کی گئی تھی اور تب سے اپنی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہے۔

1.7 ارب مسلمانوں کی نمائندگی کرنے والی یہ تنظیم دنیا کی تقریباً ایک چوتھائی آبادی کی نمائندگی کرتی ہے۔ او آئی سی کے رکن ممالک دنیا کے خام تیل کے 66 فیصد اور قدرتی گیس کے 60 فیصد ذخائر کے مالک ہیں۔ اس کے باوجود ان ممالک کا عالمی پیداوار میں حصہ صرف 10.6 فیصد، برآمدات میں 10.1 فیصد اور براہِ راست غیر ملکی سرمایہ کاری میں 11.3 فیصد ہے۔

ان تمام اعداد و شمار کے باوجود اسلامی دنیا میں خونریزی تھمنے کا نام نہیں لے رہے۔ 7 اکتوبر 2023 سے غزہ کی پٹی میں جاری قتلِ عام اور گزشتہ 10 دنوں سے ایران پر ہونے والے حملے ایک بار پھر اس بات کو واضح کرتے ہیں کہ اسلامی دنیا کو جاگنا اور متحد ہونا ہوگا۔ نجات صرف اسی وقت ممکن ہے جب ہم ایک مضبوط اور متحد کھڑے ہوں۔

ایک ایسے نازک وقت میں جب اسرائیل کے غزہ اور ایران پر حملے جاری ہیں، استنبول ایک بار پھر ایک اہم عالمی اجلاس کی میزبانی کر رہا ہے، اور دنیا کی نظریں ایک بار پھر ترکیہ پر مرکوز ہیں۔ ترکیہ 21 اور 22 جون کو ’بدلتی دنیا میں اسلامی تعاون تنظیم‘ کے عنوان سے منعقد ہونے والے اسلامی تعاون تنظیم کے وزرائے خارجہ کونسل کے 51ویں اجلاس کی میزبانی کر رہا ہے۔

’ہم کسی نئے سائیکس پیکو معاہدے کو ہرگز قبول نہیں کریں گے۔‘

صدر رجب طیب اردوان نے اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) کے وزرائے اسلامی تعاون تنظیم کے وزرائے خارجہ کے 51ویں اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے ترک صدر رجب طیب ایردوان نے کہا کہ ’جب ہماری مشترکہ اقدار اور مسائل کی بات ہو تو ہمیں سب کو مل کر ایک ساتھ کھڑا ہونا چاہیے۔ 2 ارب مسلمانوں پر مشتمل امت مسلمہ کا ایک مضبوط اور خودمختار اتحاد بنانا اب بہت ضروری ہے۔ ہم ایک ایسے وقت میں ہیں جہاں اسلامی دنیا کو اہم کردار ادا کرنا ہوگا۔‘

اردوان نے واضح انداز میں کہاکہ ’ہم کسی نئے سائیکس پیکو معاہدے کو ہرگز قبول نہیں کریں گے۔‘

(نوٹ: سائیکس پیکو وہ خفیہ معاہدہ تھا جس کے تحت پہلی جنگِ عظیم کے بعد مشرقِ وسطیٰ کو زبردستی تقسیم کیا گیا تھا۔)

اجلاس میں او آئی سی کے ذیلی اداروں کے نمائندوں کے ساتھ ساتھ اقوام متحدہ، عرب لیگ، خلیج تعاون کونسل، بحیرہ اسود اقتصادی تعاون تنظیم، ڈی-8 (ترقی پذیر آٹھ ممالک)، اقتصادی تعاون تنظیم، ترک ریاستوں کی تنظیم، بین الاقوامی ادارہ برائے مہاجرت اور عالمی تجارتی تنظیم سمیت تقریباً 30 بین الاقوامی اداروں کے اعلیٰ سطحی نمائندے شرکت کریں گے۔

وزرائے خارجہ کونسل کے اجلاس کو تقریباً 200 مقامی و غیر ملکی صحافی کور کریں گے۔ اسی اجلاس کے دوران عرب لیگ کی غیر معمولی وزارتی کانفرنس بھی ترکیہ میں منعقد ہوگی، جو کہ عرب لیگ کا ترکی میں ہونے والا پہلا اجلاس ہوگا۔

ترکی نے اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) کی سرگرمیوں میں ہمیشہ اہم کردار ادا کیا ہے۔ اس نے 1976، 1991 اور 2004 میں وزرائے خارجہ کونسل کے اجلاسوں کی میزبانی کی اور اب 51ویں اجلاس کے ذریعے چوتھی بار اس اہم اجلاس کی میزبانی کر رہا ہے۔

ترکی وہ پہلا ملک بھی ہے جس نے 2015 میں سعودی عرب کے شہر جدہ میں او آئی سی کے تحت مستقل نمائندہ دفتر قائم کیا۔ 2016 میں ترکیہ نے اسلامی سربراہانِ مملکت کی سطح پر ہونے والی 13ویں اسلامی سربراہ کانفرنس کی میزبانی کی۔ اس کے بعد 2016 سے 2019 تک ترکی نے اسلامی سربراہ کانفرنس کی دورانیہ صدارت بھی سنبھالی۔

اسی عرصے کے دوران ترکیہ نے 2017 اور 2018 میں دو بار غیر معمولی اسلامی سربراہ اجلاسوں کی میزبانی کرتے ہوئے عالمی سطح پر امت مسلمہ کے اہم مسائل کو اجاگر کرنے میں فعال کردار ادا کیا۔

اسلامی تعاون تنظیم کیا ہے؟

اسلامی تعاون تنظیم کا قیام 21 اگست 1969 کو مقبوضہ بیت المقدس میں واقع مسجد اقصیٰ کو نذر آتش کیے جانے کے واقعے کے بعد عمل میں آیا۔ اس واقعے پر عالمِ اسلام میں شدید ردعمل سامنے آیا، جس کے نتیجے میں 22 تا 25 ستمبر 1969 کو رباط (مراکش) میں اسلامی سربراہی کانفرنس منعقد ہوئی، جہاں اسلامی کانفرنس تنظیم کی بنیاد رکھی گئی۔ بعد ازاں 2011 میں تنظیم نے اپنے 38ویں وزرائے خارجہ اجلاس میں نام تبدیل کرتے ہوئے ’اسلامی تعاون تنظیم‘ رکھ لیا۔

اقوام متحدہ کے بعد او آئی سی دنیا کی سب سے بڑی سیاسی تنظیم ہے، جس کے 4 براعظموں سے تعلق رکھنے والے 57 رکن اور 5 مبصر ممالک ہیں۔ ان میں شمالی قبرص ترک جمہوریہ 1979 سے مبصر رکن ہے۔ ترکی ان 25 بانی ممالک میں شامل ہے جنہوں نے او آئی سی کی بنیاد رکھی تھی۔

اسلامی تعاون تنظیم 1.7 ارب مسلمانوں پر مشتمل ایک وسیع خطے کی نمائندگی کرتی ہے، جو دنیا کی کل آبادی کا تقریباً ایک چوتھائی بنتی ہے۔ تنظیم کے رکن ممالک کی تقریباً 60 فیصد آبادی 24 سال سے کم عمر افراد پر مشتمل ہے۔

او آئی سی ممالک دنیا کے 66 فیصد خام تیل اور 60 فیصد قدرتی گیس کے ذخائر کے مالک ہیں، لیکن عالمی پیداوار میں ان کا حصہ صرف 10.6 فیصد، برآمدات میں 10.1 فیصد اور براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری میں 11.3 فیصد ہے۔

تنظیم کا مرکزی دفتر عارضی طور پر جدہ (سعودی عرب) میں واقع ہے اور اس کے تحت 41 ذیلی، متعلقہ اور ماہر ادارے کام کرتے ہیں، جبکہ 4 مستقل کمیٹیاں بھی موجود ہیں۔ ان میں سے ایک ’اقتصادی و تجارتی تعاون کی مستقل کمیٹی‘ ہے، جس کی صدارت ترکیہ کے صدر رجب طیب اردوان کے پاس ہے۔

ترکیہ او آئی سی کے 8 ذیلی اداروں کی میزبانی کر رہا ہے اور سعودی عرب کے بعد سب سے زیادہ او آئی سی اداروں کی میزبانی کرنے والا ملک ہے۔











#ترکیہ
#او آئی سی
#مشرق وسطیٰ