
ٹرمپ کا اسرائیل کی جنگ میں شامل ہونے کا فیصلہ خطے میں کشیدگی میں خطرناک اضافہ ہے۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اعلان کیا ہے کہ امریکا نے ایران کے تین جوہری ٹھکانوں کو ’مکمل طور پر تباہ‘ کر دیا ہے، جنہیں انہوں نے ’غیر معمولی طور پر کامیاب‘ حملے قرار دیا۔
امریکی فوج نے ان حملوں میں خصوصی ’بنکر بسٹر‘ بم اور میزائل استعمال کیے، جن کا ہدف سخت سیکیورٹی والے فردو، نطنز اور اصفہان کے جوہری مراکز تھے۔
ٹرمپ کا اسرائیل کی جنگ میں شامل ہونے کا فیصلہ خطے میں کشیدگی میں خطرناک اضافہ ہے، جہاں غزہ میں اسرائیل سے جاری نسل کشی کو 21 ماہ سے زائد ہو چکے ہیں۔
امریکا کی یہ مداخلت ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب اسرائیل نے ایک ہفتے سے زائد قبل ایران کے جوہری اور عسکری مراکز پر بلا اشتعال حملہ کیا تھا، دونوں ملک تہران پر ایٹم بم بنانے کا الزام عائد کرتے ہیں۔
ایران اور اقوام متحدہ کے جوہری نگران ادارے (آئی اے ای اے) دونوں نے ان دعوؤں کو مسترد کر دیا ہے کہ تہران جوہری ہتھیار بنانے کے قریب ہے۔

حملہ کیسے ہوا اور کن مقامات کو نشانہ بنایا گیا؟
صدر ٹرمپ نے اعلان کیا کہ ایران کے تین اہم جوہری مراکز پر بمباری کی گئی:
1. فردو فیول انرشمنٹ پلانٹ: یہ یورینیم افزودگی کا ایک انتہائی محفوظ اور زمین کے اندر گہرائی میں واقع مرکز ہے، جو شمالی شہر قم کے قریب واقع ہے۔
2. نطنز جوہری تنصیب: یہ ایران کا یورینیم افزودگی کمپلیکس ہے، جو سینٹرل ایران میں اصفہان کے قریب واقع ہے۔
3. اصفہان نیوکلیئر ٹیکنالوجی سینٹر: یہ ایک اہم تحقیقاتی مرکز ہے جو اصفہان شہر کے جنوب میں واقع ہے۔

امریکی چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف، جنرل ڈین کین کے مطابق جمعہ اور ہفتہ کی درمیانی رات ’آپریشن مڈنائٹ ہیمر‘ کے تحت امریکا سے سات بی-2 اسٹیلتھ بمبار طیاروں کا ایک بڑا اسکواڈرن روانہ کیا گیا، جن میں ہر طیارے میں دو پائلٹس سوار تھے۔
حملہ خفیہ رکھنے کے لیے امریکا نے ایک منصوبہ بنایا۔ ایک جعلی طیارہ گروپ بحرالکاہل کی طرف اڑان بھرا تاکہ دھیان بٹایا جا سکے، جبکہ اصل حملہ کرنے والے طیارے مشرق کی طرف روانہ ہوئے اور 18 گھنٹے طویل پرواز کے دوران انتہائی محدود مواصلاتی رابطے رکھے گئے۔
رات 1:30 بجے (پاکستانی وقت کے مطابق) خطے میں موجود ایک امریکی آبدوز نے اصفہان میں جوہری تنصیبات پر دو درجن سے زائد ٹوماہاک میزائل داغے، جن سے زمین پر موجود اہم ڈھانچے تباہ کیے گئے۔
امریکی وقت کے مطابق شام 6:40 بجے (ایران کے وقت کے مطابق رات 2:10 بجے)، پہلے بی-2 اسٹیلتھ بمبار طیارے نے فردو کے مقام پر دو بڑے ’جی بی یو-57‘ بم گرائے، جنہیں ’ماسو آرڈیننس پینیٹریٹر‘ (ایم او پی) کہا جاتا ہے۔ اس کے بعد فردو اور نطنز پر مجموعی طور پر 14 ایسے بم گرائے گئے۔
فردو، نطنز اور اصفہان، ان تینوں جوہری مقامات پر ایک ہی وقت میں حملے کیے گئے، جو شام 6:40 سے 7:05 بجے (ایران کے وقت کے مطابق رات 1:30 سے 2:10 بجے) کے درمیان ہوئے۔
اصفہان پر آخر میں میزائل حملہ کیا گیا تاکہ حملہ اچانک اور خفیہ رہے۔
اس پورے آپریشن میں 125 سے زائد امریکی طیارے شامل تھے، جن میں اسٹیلتھ بمبار، لڑاکا طیارے، درجنوں فیول ٹینکرز، نگرانی کرنے والے طیارے اور معاون عملہ شامل تھا۔
پنٹاگون نے اسے امریکی تاریخ کی سب سے بڑی بی-2 جنگی کارروائی قرار دیا ہے اور کہا کہ یہ بی-2 بمبار کی دوسری طویل ترین پرواز بھی تھی۔ خطے میں ممکنہ ایرانی ردعمل کے پیش نظر تمام امریکی اڈوں کی سیکیورٹی بھی بڑھا دی گئی ہے۔