
امریکہ کی جانب سے ایران کے اہم جوہری مقامات پر حملے کے بعد دنیا بھر کی نظریں ایران کی جوابی کارروائی پر ہیں۔
ہفتے اور اتوار کی درمیانی شب امریکہ کا ایران پر حملہ 1979 کے انقلاب کے بعد سب سے بڑی مغربی فوجی کارروائی تھی۔
امریکہ نے فردو کے جوہری مرکز کے پہاڑ پر بڑے بم گرائے، جن کا وزن 30 ہزار پاؤنڈ تھا۔ حملے اگلے دن ایران نے کہا کہ اسے دفاع کا حق حاصل ہے جبکہ امریکی حکام نے ایران سے تحمل کا مظاہرہ کرنے کی اپیل کی ہے۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ٹروتھ سوشل پر ایران میں حکومت کی تبدیلی (ریجیم چینج) کا اشارہ دیا۔ انہوں نے لکھا کہ ’رجیم چینج' کی اصطلاح استعمال کرنا سیاسی طور پر درست نہیں ہے لیکن اگر ایران کی موجودہ حکومت اپنے ملک کو دوبارہ عظیم نہیں بنا پا رہی تو رجیم چینج کیوں نہیں ہو گی۔
امریکہ کے محکمۂ داخلہ نے خبردار کیا ہے کہ ملک میں خطرہ بڑھ گیا ہے۔
محکمے نے کہا کہ ایران کی جانب سے سائبر حملوں یا مخصوص پرتشدد کارروائیوں کا خطرہ موجود ہے۔ اس کے پیشِ نظر امریکہ کے بڑے شہروں میں قانون نافذ کرنے والے اداروں نے سیکیورٹی بڑھا دی ہے، خاص طور پر مذہبی، ثقافتی اور سفارتی مقامات پر گشت میں اضافہ کیا گیا ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ ایران کے پاس جوابی کارروائی کے لیے کیا آپشنز ہیں؟ اور مشرق وسطیٰ میں امریکہ کے اہم فوجی اڈے کون سے ہیں؟
ایران خطے میں موجود امریکی مفادات کو نشانہ بنا سکتا ہے، جہاں تقریباً 40 ہزار امریکی فوجی ترکیہ سے لے کر خلیجی ممالک تک 19 فوجی اڈوں میں تعینات ہیں۔ ایرانی پاسدارانِ انقلاب کے مطابق یہ امریکی تنصیبات اُن کے ڈرونز اور میزائلوں کی رینج میں ہیں۔
دوسرا آپشن یہ ہوسکتا ہے کہ ایران آبنائے ہرمز کا راستہ بن کرسکتا ہے، جہاں سے دنیا کا ایک تہائی تیل بھیجا جاتا ہے۔ لیکن چونکہ ایران بھی اسی راستے سے اپنا تیل ایکسپورٹ کرتا ہے، اس لیے اس آپشن کا انتخاب ایران کی اپنی معیشت کے لیے خطرہ ہے۔۔
ایران اپنے پروکسی گروپوں کے ذریعے بھی امریکا کو جواب دے سکتا ہے، جیسے عراق میں موجود شیعہ ملیشیاز جو امریکی اڈوں کو نقصان پہنچا سکتے ہیں۔ یمن میں ایران کے حمایت یافتہ حوثی پہلے ہی امریکی بحری جہازوں کو نشانہ بنانے کی دھمکی دے چکے ہیں۔
خلیجی ممالک کے تیل اور گیس کے انفراسٹرکچر پر حملہ بھی ایک آپشن ہو سکتا ہے۔ جیسا کہ 2019 میں سعودی عرب کی تنصیبات پر حملے کے وقت ہوا تھا، جس سے عارضی طور پر سعودی تیل کی پیداوار کا نصف بند ہو گیا تھا۔ تاہم ایران اور سعودی عرب کے تعلقات اب بہتر ہیں، اس لیے ایران شاید اس آپشن کا انتخاب نہ کرے۔
اگر ایران نے کوئی بڑا حملہ کیا، تو امریکہ کا ردعمل بھی شدید ہو سکتا ہے۔
مشرق وسطیٰ میں امریکہ کے اہم فوجی اڈے کہاں کہاں ہیں؟
بحرین
بحرین میں امریکہ کی بحریہ کا پانچواں بیڑہ موجود ہے، جو ایک اہم فوجی کمان ہے۔ یہ بیڑہ خلیج، بحیرہ احمر، بحیرہ عرب اور بحر ہند کے کچھ علاقوں میں امریکی بحری کارروائیوں کی نگرانی کرتا ہے۔
قطر
قطر کے دارالحکومت دوحہ کے صحرا میں واقع العدید ایئر بیس (24 ہیکٹر رقبے پر مشتمل) امریکہ کے سینٹرل کمانڈ کا فارورڈ ہیڈکوارٹر ہے، جو مصر سے لے کر قازقستان تک امریکی فوجی کارروائیوں کی نگرانی کرتا ہے۔
یہ مشرق وسطیٰ کا سب سے بڑا امریکی فوجی اڈہ ہے، جہاں تقریباً 10,000 امریکی فوجی تعینات ہیں۔
کویت
کویت میں امریکہ کے کئی بڑے فوجی اڈے موجود ہیں۔ ان میں کیمپ عریفجان شامل ہے، جو امریکی آرمی سینٹرل کا فارورڈ ہیڈکوارٹر ہے۔
اس کے علاوہ علی السالم ایئر بیس بھی اہم اڈہ ہے، جو عراق کی سرحد سے تقریباً 40 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ جسے ’دی راک‘ کہا جاتا ہے۔
ایک اور اہم اڈہ کیمپ بئرنگ ہے، جو 2003 کی عراق جنگ کے دوران قائم کیا گیا تھا۔ یہ عراق اور شام میں تعینات ہونے والی امریکی افواج کے لیے ایک اسٹیجنگ پوائنٹ کے طور پر کام کرتا ہے۔
متحدہ عرب امارات
متحدہ عرب امارات کے دارالحکومت ابوظہبی میں الظفرہ ایئر بیس قائم ہے۔ یہ بیس داعش کے خلاف مشنز اور خطے میں نگرانی کے مشنز کے لیے اہم کردار ادا کرتی ہے۔
دوسری جانب دبئی میں جبل علی بندرگاہ موجود ہے۔ اگرچہ یہ باضابطہ فوجی اڈہ نہیں ہے، مگر یہ امریکی بحریہ کی مشرق وسطیٰ میں سب سے بڑی بندرگاہ ہے جہاں امریکی طیارہ بردار جہاز اور دیگر بحری جہاز اکثر آتے ہیں۔
عراق
عراق میں امریکہ کے دو اہم فوجی اڈے ہیں۔ پہلا عین الاسد ایئر بیس ہے جو عراق کے الانبار صوبے میں واقع ہے۔ یہاں امریکی فوجی عراقی سیکیورٹی فورسز کی مدد کرتے ہیں اور نیٹو مشن کا حصہ بھی ہیں۔ 2020 میں ایران نے جنرل قاسم سلیمانی کی ہلاکت کے جواب میں اس بیس پر میزائل حملہ کیا تھا۔
دوسرا اڈہ اربیل ایئر بیس ہے، جو عراق کے کردستان ریجن میں واقع ہے۔ یہ امریکی اور اتحادی افواج کے لیے ایک تربیتی مرکز ہے، جہاں مشقیں، انٹیلی جنس شیئرنگ اور دیگر فوجی سرگرمیاں ہوتی ہیں۔ یہ بیس شمالی عراق میں امریکی فوجی کارروائیوں کو سہارا دینے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔
سعودی عرب
2024 کے وائٹ ہاوس لیٹر کے مطابق سعودی عرب میں تقریباً 2,321 امریکی فوجی تعینات تھے۔ یہ فوجی سعودی حکومت کے ساتھ مل کر کام کرتے ہیں اور فضائی و میزائل حملوں کے خلاف دفاعی نظام چلاتے ہیں۔ ان میں سے کچھ فوجی ریاض سے تقریباً 60 کلومیٹر جنوب میں واقع پرنس سلطان ایئر بیس پر موجود ہیں۔
اس بیس پر امریکہ کے دفاعی ہتھیار، جیسے پیٹریاٹ میزائل اور تھاد سسٹم ہیں، جو امریکہ کی فضائی دفاعی صلاحیتوں کا اہم حصہ ہیں۔
عمان
2024 کی امریکی لائبریری آف کانگریس کی رپورٹ کے مطابق اردن کے شہر ازرق میں مؤفق السالطی نامی ایئر بیس موجود ہے۔ یہاں امریکی فضائیہ کی 332ویں ایئر ایکسپیڈیشنری وِنگ تعینات ہے، جو مشرقی بحیرہ روم کے علاقے میں مختلف فوجی مشنز میں حصہ لیتی ہے۔