
ایرانی پارلیمنٹ ایک ایسا بل تیار کررہی ہے جس کے ذریعے تہران جوہری معاہدے (این پی ٹی) سے نکلنے کا فیصلہ کر سکتا ہے۔
ایران نے پیر کے روز کہا تھا کہ اس کی پارلیمنٹ ایک ایسے بل پیش کرنے جارہی ہے جس سے ملک جوہری عدم پھیلاؤ کے معاہدے (این پی ٹی) سے نکل سکتا ہے۔
اسرائیل نے 13 جون کو ایران کے خلاف فوجی کارروائیاں شروع کیں، جن کی وجہ تہران کے جوہری پروگرام پر خدشات تھے۔ یہ کارروائیاں ایک دن بعد شروع ہوئیں جب اقوام متحدہ کے جوہری نگراں ادارے (آئی اے ای اے) کے بورڈ آف گورنرز نے کہا کہ ایران نے این پی ٹی کے تحت معاہدے کی خلاف ورزی کی ہے۔
ایران، جو جوہری ہتھیار بنانے کی کوششوں کی تردید کرتا ہے، نے اسرائیل کے حملوں کے جواب میں میزائل فائر کیے ہیں۔
ذیل میں جوہری عدم پھیلاؤ کے معاہدے (این پی ٹی) سے متعلق چند اہم نکات درج ہیں:
این پی ٹی کا مقصد:
یہ معاہدہ 1970 میں نافذ ہوا۔ اس کا بنیادی مقصد جوہری ہتھیار بنانے کی صلاحیت کے پھیلاؤ کو روکنا، رکن ممالک کو پرامن مقاصد کے لیے جوہری توانائی کے استعمال کا حق فراہم کرنا اور امریکا، روس، چین، فرانس اور برطانیہ جیسے ممالک جو پہلے سے جوہری ہتھیار رکھتے ہیں، ان پر یہ ذمہ داری ڈالی گئی ہے کہ وہ وقت کے ساتھ ساتھ اپنے جوہری ہتھیاروں کو کم کریں تاکہ دنیا کو محفوظ بنایا جا سکے۔
جوہری ہتھیاروں سے لیس ممالک کی تعریف:
جو ممالک یکم جنوری 1967 سے پہلے جوہری ہتھیار بنا چکے تھے اور ان کا تجربہ کر چکے تھے، انہیں این پی ٹی (این پی ٹی) معاہدے کے تحت ’جوہری ہتھیاروں سے لیس ممالک‘ تسلیم کیا گیا ہے۔ اور ان ملکوں میں امریکہ، برطانیہ، چائنہ، روس اور فرانس شامل ہیں۔
ان ہی پانچ ممالک کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے مستقل رکن ہونے کا خصوصی درجہ بھی حاصل ہے۔
این پی ٹی معاہدے پر دستخط کرنے والے ممالک:
جوہری عدم پھیلاؤ کے معاہدے (این پی ٹی) پر 191 ممالک نے دستخط کیے ہیں۔ اس معاہدے کے تحت جوہری ہتھیاروں والے ممالک اس بات پر رضامند ہیں کہ وہ نہ تو یہ ہتھیار کسی اور کو منتقل کریں گے اور نہ ہی ایسے ممالک کو ان کی تیاری میں مدد دیں گے جو جوہری ہتھیار نہیں رکھتے۔
این پی ٹی معاہدے پر دستخط نہ کرنے والے ممالک:
تین اہم ممالک ایسے ہیں جنہوں نے اس معاہدے پر دستخط نہیں کیے:
انڈیا اور پاکستان نے نے این پی ٹی پر دستخط کیے بغیر خود اپنے جوہری ہتھیار تیار کیے۔
جبکہ اسرائیل نے بھی معاہدے پر دستخط نہیں کیے اور عمومی طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ اس کے پاس جوہری ہتھیار موجود ہیں، لیکن اسرائیل نے کبھی اس کی تصدیق یا تردید عوامی سطح پر نہیں کی۔
اس کےعلاوہ شمالی کوریا نے 1985 میں این پی ٹی پر دستخط کیے تھے۔ لیکن 2003 میں اس نے معاہدے سے علیحدگی کا اعلان کر دیا، جب امریکی حکام نے اس پر خفیہ یورینیم افزودگی پروگرام کا الزام لگایا۔
بعد ازاں شمالی کوریا نے 2009 میں بین الاقوامی جوہری توانائی ایجنسی (آئی اے ای اے) کے جوہری معائنہ کاروں کو ملک سے نکال دیا اور وہ اس کے بعد واپس نہیں گئے۔
معاہدے سے نکلنے کی اجازت:
جوہری عدم پھیلاؤ کا معاہدہ (این پی ٹی) 11 شقوں پر مشتمل ہے۔
ان میں ایک شق ایسی ہے جو کسی بھی ملک کو یہ اجازت دیتی ہے کہ وہ معاہدے سے باہر نکل سکتا ہے اگر اسے لگے کہ کچھ غیر معمولی حالات اس کے قومی مفادات کو خطرے میں ڈال رہے ہیں۔
ایسا ملک کو معاہدے سے نکلنے سے پہلے تین ماہ کا نوٹس دینا ہوتا ہے اور یہ نوٹس تمام رکن ممالک اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کو دیا جاتا ہے۔
معاہدے کا جائزہ:
این پی ٹی پر دستخط کرنے والے تمام ممالک ہر پانچ سال بعد ایک اجلاس کرتے ہیں تاکہ معاہدے کا جائزہ لے سکیں، یعنی یہ دیکھا جاتا ہے کہ:
- معاہدے پر عمل ہو رہا ہے یا نہیں؟
- کوئی مسئلہ یا نیا خطرہ تو پیدا نہیں ہوا؟
- اگلا ایسا اجلاس سال 2026 میں ہونا ہے۔
ایران اور این پی ٹی:
ایران نے 1970 سے ہی جوہری عدم پھیلاؤ کے معاہدے (این پی ٹی) پر دستخط کر رکھے ہیں۔
ایران کا کہنا ہے کہ اس کا یورینیم افزودگی پروگرام صرف پرامن مقاصد (جیسے بجلی پیدا کرنا، علاج، تحقیق) کے لیے ہے، ہتھیار بنانے کے لیے نہیں۔ لیکن مغربی طاقتیں (جیسے امریکا اور یورپی ممالک) اور اسرائیل کو شک ہے کہ ایران ایٹم بم بنانے کی تیاری کر رہا ہے۔
آئی اے ای اے کی کارروائی:
13 جون 2025 کو اقوام متحدہ کے جوہری ادارے (آئی اے ای اے) کے 35 ممالک پر مشتمل بورڈ نے اعلان کیا کہ ایران نے جوہری عدم پھیلاؤ کے معاہدے کی خلاف ورزی کی ہے۔ اور ایسا تقریباً 20 سال بعد پہلی بار کیا گیا ہے۔
اس سے پہلے 31 مئی کو آئی اے ای اے نے ایک تفصیلی اور سنگین رپورٹ جاری کی، جس میں کہا گیا تھا کہ ایران نے 2019 سے اب تک کئی بار معاہدے کی شرائط پوری نہیں کیں۔ اس نے جوہری مواد اور سرگرمیوں سے متعلق مکمل اور بروقت تعاون نہیں کیا، خاص طور پر ان مقامات پر جو اس نے ظاہر ہی نہیں کیے۔
تشویش کی وجوہات – آئی اے ای اے کو کیا شکایت ہے؟
اقوام متحدہ کے جوہری ادارے آئی اے ای اے کو سب سے زیادہ تشویش اس بات پر ہے کہ ایران میں کچھ ایسے مقامات سے یورینیم کے ذرات ملے ہیں جو ایران نے ظاہر ہی نہیں کیے تھے۔ آئی اے ای اے کا کہنا ہے کہ وہ کئی سالوں سے اس معاملے کی تحقیقات کر رہا ہے۔ ان ذرات کا تعلق 20 سال سے زیادہ پرانی سرگرمیوں سے لگتا ہے۔ مگر ایران نے یہ واضح اور قابلِ اعتماد وضاحت نہیں دی کہ یہ یورینیم وہاں کیسے آیا؟
ایران کا مؤقف:
ایران کی وزارتِ خارجہ اور ایٹمی توانائی تنظیم نے کہا کہ ایران نے ہمیشہ اپنے بین الاقوامی وعدوں پر عمل کیا ہے۔ آئی اے ای اے کی رپورٹ سیاسی مقاصد پر مبنی ہے اور اس میں تکنیکی یا قانونی بنیادیں موجود نہیں۔
کیا ایران این پی ٹی سے الگ ہو سکتا ہے؟
ایک پریس کانفرنس میں جب سوال کیا گیا کہ کیا ایران این پی ٹی سے نکل رہا ہے، تو ایرانی ترجمان نے کہا کہ ’ہم جوہری ہتھیار بنانے کے خلاف اپنے مؤقف پر قائم ہیں، لیکن موجودہ حالات کے پیشِ نظر ہم مناسب فیصلہ کریں گے۔ حکومت پارلیمنٹ کے منظور کردہ قوانین پر عمل کی پابند ہے اور یہ بل فی الحال تیاری کے مرحلے میں ہے، بعد میں ہم پارلیمنٹ سے مزید مشاورت کریں گے۔‘
ایران پر جوہری پابندیاں:
2006 میں پابندیاں کیوں لگیں؟
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے ایران سے کہا تھا کہ وہ یورینیم افزودگی کا پروگرام بند کرے۔
جب ایران نے ایسا نہیں کیا تو 2006 میں اس پر پابندیاں لگا دی گئیں۔
2015 کا معاہدہ:
2015 میں ایران نے چھ عالمی طاقتوں (امریکہ، برطانیہ، فرانس، روس، چین اور جرمنی) سے ایک معاہدہ کیا۔ اس معاہدے کے تحت ایران نے اپنے جوہری پروگرام کو محدود کیا (لیکن معمولی مقدار میں یورینیم افزودہ کرنے کی اجازت رکھی)۔ بدلے میں اس پر لگی اقتصادی پابندیاں ختم کر دی گئیں۔ بعد ازاں 2018 میں اُس وقت کے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اس معاہدے سے امریکہ کو نکال لیا۔ پھر امریکہ نے ایران پر دوبارہ سخت پابندیاں لگا دیں۔
اس کے جواب میں ایران نے اپنے جوہری پروگرام پر لگائی گئی پابندیاں ختم کرنا شروع کر دیں۔ یورینیم کی افزودگی بڑھا دی اور کئی پرانے معاہدے توڑ دیے۔
اب کیا صورتحال ہے؟
ایران اور امریکہ اپریل 2025 سے اب تک دوبارہ بالواسطہ بات چیت کر رہے ہیں۔
کوشش ہو رہی ہے کہ ایران کچھ نئی جوہری پابندیاں قبول کرے اور اس کے بدلے میں امریکہ اور دوسرے ممالک پابندیاں ہٹا دیں۔