
شامی حکومت نے ہفتے کو ایک جنگ بندی کا اعلان کیا تھا، جو فی الحال قائم ہے۔
شام کے جنوبی علاقے السویدہ میں ایک ہفتے کی لڑائی کے بعد اب حالات کچھ بہتر ہو گئے ہیں۔ یہ لڑائی دروز قبیلے کے لوگوں اور ان کے مخالف گروہوں کے درمیان ہوئی تھی، جس میں ایک ہزار سے زیادہ لوگ مارے گئے۔
خبر رساں ادارے سانا کے مطابق حکومت نے ہفتے کو ایک جنگ بندی کا اعلان کیا تھا، جو فی الحال قائم ہے۔ اس سے پہلے کیے گئے معاہدے ناکام ہو چکے تھے۔ اس لڑائی میں شامی حکومت، اسرائیلی فوج اور دوسرے علاقوں کے مسلح قبائل بھی شامل ہو گئے تھے۔
اتوار کی صبح کوئی گولی یا لڑائی کی آواز نہیں سنی گئی اور حکومت نے کچھ علاقوں میں اپنی فوج بھیج دی ہے تاکہ جنگ بندی برقرار رہے۔ ایک امدادی قافلہ بھی دروز قبیلے کے علاقے کی طرف بھیجا گیا ہے۔
شام کے انسانی حقوق کے نگران ادارے کا کہنا ہے کہ رات کے بعد سے علاقے میں خاموشی ہے اور حکومت نے وہاں جانے والے راستے بند کر دیے ہیں تاکہ مزید قبائلی لوگ وہاں نہ جا سکیں۔
برطانیہ میں قائم شامی مبصر برائے انسانی حقوق نے اتوار کو تازہ اعداد و شمار جاری کرتے ہوئے بتایا کہ ایک ہفتے پہلے شروع ہونے والی جھڑپوں میں اب تک ایک ہزار سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔
ان میں 336 دروز جنگجو، 298 دروز شہری، 342 شامی حکومتی سیکیورٹی اہلکار اور 21 بدو قبیلے کے افراد شامل ہیں۔
عینی شاہدین، دروز گروہوں اور انسانی حقوق کے مبصر نے حکومتی فورسز پر الزام لگایا ہے کہ وہ لڑائی میں بدو قبیلے کا ساتھ دے رہی ہیں اور انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں کر رہی ہیں جن میں بغیر کسی عدالتی کارروائی کے لوگوں کو قتل کرنا بھی شامل ہے۔
السویدہ میں صورتحال پُرامن
شام کے صوبہ السویدہ میں صورتحال مکمل طور پر پُرامن ہو گئی ہے۔
وزارت داخلہ نے رات کو اعلان کیا کہ شہر السویدہ سے تمام قبائلی جنگجو نکل گئے ہیں اور شہر کے اندر جھڑپیں بند ہو چکی ہیں۔
شامی مبصر ادارے نے بتایا کہ دروز جنگجوؤں نے ہفتے کی شام شہر کا کنٹرول دوبارہ سنبھال لیا۔
ہفتے کو شامی صدر احمد الشرع نے ایک نئی جنگ بندی کا اعلان کیا اور اس عزم کو دہرایا کہ شام میں رہنے والی نسلی اور مذہبی اقلیتوں کا تحفظ کیا جائے گا۔ یہ بیان خاص طور پر اس وقت دیا گیا جب بشار الاسد کی حکومت دسمبر میں ختم ہونے کے بعد فرقہ وارانہ کشیدگی میں اضافہ دیکھا گیا۔
شام کے قبائل و برادریوں کی کونسل کے ایک ترجمان نے الجزیرہ کو بتایا کہ لڑاکا افراد نے صدر کے مطالبے اور معاہدے کی شرائط کے تحت شہر چھوڑ دیا ہے۔
شہر کے ایک میڈیکل ورکر نے اتوار کو بتایا کہ ’صورتحال بالکل پُرامن ہے، اب کسی جھڑپ کی آواز نہیں آ رہی۔‘ لیکن انہوں نے یہ بھی کہا کہ اب تک کوئی طبی یا امدادی سامان شہر میں داخل نہیں ہوا۔
سرکاری خبر رساں ایجنسی سانا نے کچھ تصاویر شائع کی ہیں جن میں دمشق میں وزارت صحت کے قریب امدادی سامان تیار ہوتے دکھایا گیا ہے۔ وزیر صحت مصعب العلی نے کہا کہ یہ سامان السویدہ کے مرکزی اسپتال بھیجا جائے گا۔
شہر کے اندر تقریباً 1.5 لاکھ افراد رہتے ہیں اور وہ گزشتہ دنوں اپنے گھروں میں بند رہے ہیں۔ نہ بجلی ہے، نہ پانی، اور خوراک کی بھی شدید کمی ہے۔
اقوام متحدہ کی مائیگریشن ایجنسی کے مطابق، السویدہ میں اب تک ایک لاکھ 28 ہزار سے زائد افراد بے گھر ہو چکے ہیں۔