ڈاکٹر عافیہ صدیقی کیس: اسلام آباد ہائی کورٹ نے وزیراعظم شہباز شریف اور وفاقی وزرا کو توہین عدالت کا نوٹس جاری کردیا

12:2621/07/2025, پیر
جنرل21/07/2025, پیر
ویب ڈیسک
مسلسل اپیلوں کے باوجود امریکی حکومت نے عافیہ صدیقی کی سزا یا سزا پر نظرثانی کے حوالے سے کوئی عندیہ نہیں دیا۔
تصویر : سوشل / فائل
مسلسل اپیلوں کے باوجود امریکی حکومت نے عافیہ صدیقی کی سزا یا سزا پر نظرثانی کے حوالے سے کوئی عندیہ نہیں دیا۔

پچھلے مہینے پاکستانی نیورو سائنٹسٹ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے حوالے سے امریکا میں جاری عدالتی کارروائی میں حکومتِ پاکستان نے فریق بننے یا قانونی مدد فراہم نہ کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔

پاکستان کی اسلام آباد ہائی کورٹ نے وزیراعظم شہباز شریف سمیت وفاقی کابینہ کے وزرا کو توہینِ عدالت کا نوٹس جاری کردیا۔

یہ نوٹس ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے کیس سے متعلق رپورٹ جمع نہ کروانے پر جاری کیا گیا، جو کہ ایک عرصے سے زیرِ سماعت ہے۔ عافیہ صدیقی ایک پاکستانی نیوروسائنسدان ہیں، جو امریکہ میں 86 سال قید کی سزا کاٹ رہی ہیں۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس سردار اعجاز اسحاق خان نے حکومت کی جانب سے رپورٹ جمع کروانے میں مسلسل تاخیر پر سخت برہمی کا اظہار کیا اور کہا کہ عدالت وزیراعظم سمیت تمام وزرا کے خلاف توہینِ عدالت کی کارروائی شروع کرنے سے پیچھے نہیں ہٹے گی۔

انہوں نے ریمارکس دیے کہ ’میں پہلے ہی کہہ چکا تھا کہ اگر رپورٹ جمع نہ ہوئی تو توہینِ عدالت کی کارروائی شروع کروں گا۔ یہ عدالت وزیراعظم کے خلاف بھی کارروائی سے نہیں ہچکچائے گی۔‘

جسٹس اعجاز اسحاق خان کے مطابق کیس کی اگلی سماعت عدالت کی گرمیوں کی تعطیلات کے بعد پہلے ورکنگ ڈے پر ہوگی۔


عدالت میں دائر درخواست:

اسلام آباد ہائی کورٹ میں یہ درخواست ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی بہن، فوزیہ صدیقی نے دائر کی تھی۔اُن کا مطالبہ ہے کہ حکومت عافیہ صدیقی کے حق میں قانونی طور پر کوئی قدم اٹھائے۔

عدالت نے اس سے قبل حکومت کو یہ وضاحت پیش کرنے کا حکم دیا تھا کہ وہ عافیہ صدیقی کے خلاف امریکہ میں جاری قانونی کارروائی میں مدد یا حمایت سے انکار کیوں کر رہی ہے۔

تاہم متعدد بار دی گئی مہلتوں کے باوجود حکومت کی جانب سے ابھی تک کوئی تحریری وضاحت عدالت میں جمع نہیں کروائی گئی۔



سماعت کی تفصیلات:

پیر کے روز کیس کی سماعت کے دوران ایڈیشنل اٹارنی جنرل راشد حفیظ ایک بار پھر کیس سے متعلق رپورٹ کے بغیر عدالت میں پیش ہوئے۔

جسٹس سردار اعجاز اسحاق خان نے ریمارکس دیے کہ عافیہ صدیقی کی بہن فوزیہ صدیقی کی درخواست عام نوعیت کی نہیں بلکہ ایک سنجیدہ مسئلہ ہے، جسے حکومت کی خصوصی توجہ درکار ہے۔

جسٹس اعجاز اسحاق خان نے یہ بھی بتایا کہ انہوں نے اپنے پرسنل سیکرٹری کو ہدایت دی تھی کہ وہ چیف جسٹس کو اس سماعت کی اہمیت سے آگاہ کریں، کیونکہ اطلاع ملی تھی کہ عدالت کا روستر (مقدمات کی فہرست) تبدیل کر دیا گیا ہے۔

فوزیہ صدیقی کے وکیل عمران شفیق نے حکومت پر الزام لگایا کہ وہ جان بوجھ کر کیس میں تاخیر کر رہی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر حکومت واقعی کوئی اسٹے آرڈر لینا چاہتی، تو اب تک ایک بینچ تشکیل دیا جا چکا ہوتا۔

انہوں نے مزید کہا کہ ’ہم جانتے ہیں ہائی کورٹ کیسے کام کر رہی ہے۔ آپ کا حکم ریکارڈ پر ہے اور یہ کیس آج آپ کی عدالت میں مقرر تھا۔‘

جسٹس اعجاز اسحاق خان نے جواب دیا کہ ’مجھے نہیں پتا کہ آپ کا کیس ابھی تک سپریم کورٹ میں کیوں نہیں آیا۔‘

اس پر وکیل عمران شفیق نے دعویٰ کیا کہ کیس اس لیے سپریم کورٹ میں مقرر نہیں ہو رہا کیونکہ جسٹس منصور علی شاہ اس بینچ کا حصہ ہیں۔

ان کے مطابق ’یہ کیس صرف تب ہی آگے بڑھے گا جب روستر تبدیل ہوگا۔‘


حکومت کو دی گئی پہلے کی وارننگز:

پیر کے روز جاری ہونے والا توہینِ عدالت کا نوٹس دراصل اسی مہینے عدالت کی طرف سے دی گئی ایک سخت وارننگ کے بعد جاری کیا گیا ہے۔

11 جولائی کو ہونے والی سماعت میں جسٹس سردار اعجاز اسحاق خان نے خبردار کیا تھا کہ اگر حکومت نے عدالت کی ہدایات کو نظرانداز کرنا جاری رکھا، تو وہ پوری کابینہ کو طلب کریں گے اور توہینِ عدالت کی کارروائی پر غور کریں گے۔

اُس وقت جج نے کہا تھا کہ ’اگر وفاقی حکومت نے رپورٹ عدالت میں جمع نہ کروائی تو میں پوری کابینہ کو طلب کر لوں گا۔ تمام وزیروں کے خلاف توہینِ عدالت کی کارروائی کیوں نہ شروع کی جائے؟‘

اس سماعت کے دوران حکومت نے مؤقف اختیار کیا کہ چونکہ جج صاحب کی سالانہ رخصت قریب ہے، اس لیے انہیں مزید مہلت دی جائے، جسے عدالت نے نہ چاہتے ہوئے بھی منظور کر لیا۔

اسی سماعت میں وکیل عمران شفیق نے یہ بھی درخواست دی تھی کہ ان کی مؤکلہ (فوزیہ صدیقی) کو وزیراعظم شہباز شریف سے ملاقات کی اجازت دی جائے۔

تاہم جج نے اس درخواست پر سوال اٹھایا کہ ’وہ وزیراعظم کو ایسا کیا بتانا چاہتی ہیں جو وہ پہلے سے نہیں جانتے؟‘


قانونی اور سفارتی چیلنج:

جون میں اسلام آباد ہائی کورٹ نے حکومت کو ہدایت دی تھی کہ وہ وضاحت پیش کرے کہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے امریکی کیس میں فریق نہ بننے کا کیا قانونی جواز ہے۔

اس سے قبل ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے صرف حکومت کا مؤقف بیان کیا تھا، لیکن اس کے پیچھے کوئی قانونی دلیل پیش نہیں کی گئی تھی۔

اس موقع پر جسٹس سردار اعجاز اسحاق خان نے ریمارکس دیے تھے کہ ’یہ ایک آئینی عدالت ہے۔ اٹارنی جنرل صرف حکومت کے فیصلے سنا کر نہیں بچ سکتے، ان کے پیچھے قانونی بنیاد بھی دینا ہوگی۔‘


اہلِ خانہ کا طویل انتظار

ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو 2008 میں افغانستان سے گرفتار کیا گیا تھا۔ حکام نے دعویٰ کیا تھا کہ ان کے پاس بم بنانے کے مواد اور امریکا کے اہم مقامات کو نشانہ بنانے کے منصوبے تھے۔

تفتیش کے دوران مبینہ طور پر انہوں نے امریکی اہلکاروں پر فائرنگ کرنے کی کوشش کی، جس کی بنیاد پر انہیں اقدامِ قتل کے الزام میں سزا سنائی گئی۔

2010 میں نیویارک کی ایک فیڈرل جیوری نے انہیں اقدام قتل اور مسلح حملے کے الزامات میں مجرم قرار دیا۔

امریکی استغاثہ کے مطابق انہوں نے ایک ایم-4 رائفل اٹھا کر ایف بی آئی ایجنٹس اور فوجی اہلکاروں پر فائرنگ کی اور ’امریکا مردہ باد‘ کے نعرے لگائے۔ جوابی کارروائی میں وہ خود زخمی ہو گئیں۔

اس واقعے میں کوئی امریکی اہلکار زخمی نہیں ہوا تھا۔

تاہم ڈاکٹر عافیہ کے اہلِ خانہ کا مؤقف ہے کہ انہیں 2003 میں پاکستان میں اپنے تین بچوں کے ہمراہ دورے کے دوران اغوا کر کے خفیہ طور پر امریکی حکام کے حوالے کیا گیا تھا۔

افغان پولیس کے مطابق افغانستان کے شہر غزنی میں گرفتاری کے وقت ان کے قبضے سے سوڈیم سائنائیڈ اور ایسے نوٹس ملے تھے جن میں بڑے پیمانے پر جانی نقصان پہنچانے والے حملوں اور نیویارک کے اہم مقامات کا ذکر تھا۔ لیکن انہیں کبھی دہشت گردی کے الزامات کا سامنا نہیں کرنا پڑا اور ڈاکٹر عافیہ ان تمام الزامات کو مسترد کرتی ہیں۔

ڈاکٹر عافیہ کے تین بچے ہیں۔ ان میں سے دو ان کی بہن ڈاکٹر فوزیہ صدیقی کے ساتھ رہائش پذیر ہیں، جو ان کی رہائی کے لیے طویل عرصے سے سرگرم ہیں، جبکہ ایک بچہ تاحال لاپتہ ہے۔ ان کے تمام بچے اپنی ماں سے طویل جدائی کا شکار رہے ہیں۔

ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی قید پاکستان میں ایک نہایت حساس اور سیاسی نوعیت کا معاملہ بنی ہوئی ہے۔

گزشتہ سال وزیرِاعظم شہباز شریف نے اُس وقت کے امریکی صدر جو بائیڈن کو ایک خط لکھا تھا، جس میں انسانی ہمدردی کی بنیاد پر ڈاکٹر عافیہ کی رہائی کی اپیل کی گئی تھی۔

تاہم پاکستانی حکام اور انسانی حقوق کے کارکنوں کی بارہا اپیلوں کے باوجود، امریکا نے ان کی سزا اور سزا یافتہ حیثیت کے بارے میں اپنا مؤقف سختی سے برقرار رکھا ہے۔



(یہ خبر نکتہ ڈاٹ کام اور ڈان اخبار سے لی گئی ہے)

یہ بھی پڑھیں:








#پاکستان
#ڈاکٹر عافیہ صدیقی کیس
#اسلام آباد