
محمد شریف اللہ پر امریکہ کی ورجینیا ریاست کی ایک عدالت میں مقدمہ درج کیا گیا ہے۔
بدھ کے روز امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے عہدہ سنبھالنے کے بعد کانگریس سے پہلی بار خطاب کیا۔
انہوں نے خطاب کے دوران اس بات کی تصدیق کی کہ امریکی حکومت نے 2021 میں افغانستان سے امریکی فوج کے انخلا کے دوران کابل ایئرپورٹ پر ہونے والے خودکش حملے کے مرکزی دہشت گرد کو گرفتار کر لیا ہے۔ اور ساتھ ہی ٹرمپ نے ملزم کو گرفتار کرنے میں 'حکومت پاکستان' کا شکریہ ادا کیا۔
ٹرمپ نے خطاب کے دوران کیا کہا؟
ٹرمپ نے کانگریس سے اپنے خطاب میں کہا کہ ’تین سال پہلے افغانستان سے (امریکہ کے) نااہل انخلا کے دوران ایبی گیٹ بم دھماکے میں داعش دہشت گردوں نے 13 امریکی فوجیوں اور کئی دیگر افراد کو ہلاک کیا تھا۔‘
انہوں نے کہا کہ ’آج مجھے یہ بتاتے ہوئے خوشی محسوس ہورہی ہے کہ ہم نے اس حملے کے مرکزی ملزم کو پکڑ لیا ہے اور وہ امریکی انصاف کا سامنا کرنے کے لیے اپنے راستے پر ہے۔‘
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ ’میں خاص طور پر حکومتِ پاکستان کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں کہ انہوں نے اس مونسٹر کو گرفتار کرنے میں مدد کی‘۔
ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ جس طریقے سے افغانستان سے امریکی فوج کا انخلا کیا گیا وہ شاید ہمارے ملک کی تاریخ کا سب سے شرمناک لمحہ تھا۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ یہ ان 13 خاندانوں کے لیے اہم دن ہے جن کے پیارے اس حملے میں جان سے گئے۔ انہوں نے مزید کہا کہ وہ متاثرہ خاندانوں اور زخمیوں سے رابطے میں ہیں اور آج ان سے فون پر بات کی ہے۔
ٹرمپ کے بیان پر شہباز شریف کا بیان
ٹرمپ نے سوشل میڈیا پر جاری بیان میں کہا کہ ہم امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا پاکستان کے انسداد دہشت گردی کے کردار اور حمایت کو تسلیم کرنے پر شکریہ ادا کرتے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان ہمیشہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اہم کردار ادا کرتا رہا ہے اور کسی بھی ملک کے خلاف دہشت گردوں کو محفوظ پناہ گاہیں فراہم کرنے کے خلاف ہے۔ پاکستان دہشت گردی کے خاتمے کے عزم پر قائم ہے، جس کی راہ میں 80 ہزار سے زائد فوجیوں اور شہریوں نے جانیں قربان کیں۔ ہم علاقائی امن اور استحکام کے لیے امریکہ کے ساتھ شراکت داری جاری رکھیں گے۔
کابل ایبی گیٹ واقعہ کیا ہے؟
26 اگست 2021 کو دو خودکش حملہ آوروں نے کابل ائیرپورٹ کے ایبی گیٹ پر حملہ کیا تھا۔ اس حملے میں تقریباً 170 افغان شہریوں اور 13 امریکی فوجیوں کی جانیں گئی تھیں، جو اس وقت ایئرپورٹ کی سیکیورٹی پر تعینات تھے تاکہ امریکی انخلا کو ممکن بنایا جا سکے۔
اپریل 2023 میں وائٹ ہاؤس نے اعلان کیا تھا کہ افغان طالبان فورسز نے اس حملے کے ماسٹر مائنڈ کو ہلاک کر دیا ہے، جسے داعش خراسان کا ایک ’اہم‘ رہنما قرار دیا گیا تھا۔
منگل کے روز شائع ہونے والی رپورٹ میں سی این این نے وائٹ ہاؤس کے عہدیدار کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ کابل دھماکے کی پلاننگ میں مبینہ طور پر ملوث ہونے والا ملزم محمد شریف اللہ کو پاکستان کی خفیہ ایجنسی نے گرفتار کرلیا ہے اور اب اسے امریکہ کے حوالے کیا جا رہا ہے۔ یہی ایبی گیٹ دھماکے کی پلاننگ کا ماسٹر مائنڈ تھا۔
سی این این نے مزید کہا کہ پاکستان نے سی آئی اے کی معلومات پر کارروائی کرتے ہوئے شریف اللہ کو گرفتار کیا۔
محمد شریف اللہ کون ہے؟
شریف اللہ کون ہیں اور انہیں کیسے گرفتار کیا گیا؟وزیر اعظم شریف کے مطابق گرفتار ہونے والا شخص ایک افغان شہری ہے۔
حکومتی ذرائع نے الجزیرہ کو بتایا کہ یہ آپریشن دہشت گردی کے خلاف امریکی اور پاکستانی سیکیورٹی اداروں کے درمیان ’مضبوط تعاون‘ کو ظاہر کرتا ہے۔
ذرائع نے مزید بتایا کہ پاکستانی سیکیورٹی فورسز نے چند روز قبل امریکی انٹیلی جنس معلومات ملنے کے بعد شریف اللہ کا سراغ لگانا شروع کیا۔
’شریف اللہ کو فروری کے آخر میں پاک-افغان سرحد کے قریب ایک آپریشن میں گرفتار کیا گیا، جو مکمل طور پر پاکستانی سیکیورٹی ایجنسیوں نے انجام دیا۔ اس کے بعد اسے قانونی کارروائی کے لیے امریکہ کے حوالے کر دیا گیا۔‘
حکومتی ذرائع نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر مزید کہا کہ ’شریف اللہ کی گرفتاری پاکستان کے اس مؤقف کا ثبوت ہے کہ افغانستان دہشت گردی کا گڑھ ہے‘۔ پاکستان طویل عرصے سے طالبان حکومت پر تنقید کرتا رہا ہے کہ وہ افغان سرزمین پر مسلح گروہوں کی موجودگی کو روکنے میں ناکام رہے ہیں۔ تاہم، افغان حکومت مسلسل ان الزامات کی تردید کی ہے۔
امریکی نشریاتی ادارے سی این این کے مطابق سی آئی اے کے ڈائریکٹر جان ریٹکلف نے عہدہ سنبھالنے کے فوراً بعد پاکستانی انٹیلی جنس چیف جنرل عاصم ملک کے ساتھ اپنی پہلی ٹیلیفونک گفتگو میں اس معاملے پر بات کی۔
شریف اللہ، جو جعفر کے نام سے بھی جانا جاتا ہے، بدھ کی صبح امریکہ پہنچا۔ ایف بی آئی کے ڈائریکٹر کاش پٹیل نے اس کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ ’دہشت گرد جعفر اب باضابطہ طور پر امریکی تحویل میں ہے۔‘
محمد شریف اللہ پر کیا الزامات ہیں؟
محمد شریف اللہ پر امریکہ کی ورجینیا ریاست کی ایک عدالت میں مقدمہ درج کیا گیا ہے۔ ان پر الزام ہے کہ انہوں نے ایک ایسی تنظیم کی مدد کی، جسے امریکہ نے دہشت گرد تنظیم قرار دیا ہوا ہے۔
اس کے علاوہ ان پر یہ بھی الزام ہے کہ وہ ایک سازش میں ملوث تھے، جس کے نتیجے میں کئی افراد ہلاک ہوئے۔ یہ الزامات باضابطہ طور پر منگل کی رات عدالت میں پیش کیے گئے۔
اتوار کے روز ایف بی آئی کے ایجنٹس نے محمد شریف اللہ سے پوچھ گچھ کی، جس میں انہوں نے تسلیم کیا کہ وہ 2016 میں داعش-خراسان میں شامل ہوئے۔ فردِ جرم کے مطابق محمد شریف اللہ نے اعتراف کیا کہ وہ کئی جان لیوا حملوں میں ملوث تھے۔
عدالتی دستاویزات کے مطابق شریف اللہ کو جعفر کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ وہ 2019 سے جیل میں تھے اور ایبی گیٹ حملے سے دو ہفتے قبل رہا ہوئے تھے۔ رہائی کے بعد داعش کے ارکان نے اس سے مدد کے لیے رابطہ کیا۔
’شریف اللہ کو کابل ایئرپورٹ کے قریب حملہ آوروں کے لیے راستہ تلاش کرنے کا کام سونپا گیا تھا۔ انہوں نے حملہ آوروں کو جائے وقوع تک پہنچانے میں مدد کی۔‘
فردِ جرم میں مزید انکشاف کیا گیا کہ شریف اللہ مبینہ طور پر دو دیگر حملوں میں بھی ملوث تھا۔ ایک حملہ 2016 میں کابل میں سفارت خانے کے گارڈز پر ہوا اور دوسرا حملہ گزشتہ سال ماسکو کے نائٹ کلب پر ہوا جہاں انہوں نے حملہ آوروں کو ہتھیاروں کی ٹریننگ دی۔