
دو درجن سے زائد ملکوں نے غزہ پر جاری جنگ کے فوری خاتمے کا مطالبہ کیا ہے، ان کا کہنا ہے کہ وہاں انسانی تکالیف ’نئی حدوں‘ کو چھو چکی ہیں۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی اور قطری نشریاتی ادارے الجزیرہ کے مطابق یہ بیان ایسے وقت سامنے آیا ہے جب اسرائیل کی عالمی سطح پر تنہائی میں اضافہ ہو رہا ہے اور اس کے اتحادی ممالک کے لہجے میں بھی سختی آتی جا رہی ہے۔
اسرائیل کے اتحادی ممالک برطانیہ، فرانس، آسٹریلیا، کینیڈا اور 21 دیگر ممالک کے ساتھ ساتھ یورپی یونین نے ایک مشترکہ بیان میں کہا ہے کہ ’غزہ جنگ اب ختم ہونی چاہیے‘۔ ان ملکوں میں سے اکثر اسرائیل اور اس کے سب سے اہم حمایتی، امریکہ کے اتحادی ہیں۔
بیان میں کہا گیا کہ ’غزہ میں عام شہریوں کی تکالیف نئی حدوں کو چھو رہی ہیں‘۔ ان ممالک نے جنگ بندی، حماس کے زیرِ حراست افراد کی رہائی اور ضروری امداد کی آزادانہ فراہمی پر زور دیا۔
بیان میں ’امداد کی عدم فراہمی‘ اور ان ’عام شہریوں، بشمول بچوں کی ہلاکتوں‘ کی شدید مذمت کی گئی ہے جو صرف پانی اور خوراک جیسی بنیادی ضروریات کے حصول کی کوشش کر رہے تھے۔
اقوامِ متحدہ اور غزہ کی وزارتِ صحت کے مطابق مئی کے آخر سے اب تک کم از کم 875 فلسطینی اس وقت ہلاک ہو چکے ہیں جب وہ کھانے کی تلاش میں تھے۔
بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ ’اسرائیل کا امداد پہنچانے کا طریقہ نہ صرف خطرناک ہے بلکہ حالات کو مزید خراب کررہا ہے۔ لوگوں کو خوراک، پانی اور علاج جیسی ضروری چیزوں سے روکنا قابل قبول نہیں۔ اسرائیل کو بین الاقوامی قوانین کے مطابق اپنا فرض پورا کرنا ہوگا۔‘
اسرائیل اور امریکہ کا ردعمل
اسرائیل کی وزارتِ خارجہ نے اس بیان کو "حقیقت سے دور" قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ یہ حماس کو غلط پیغام دے گا۔اسرائیل کا کہنا ہے کہ مغربی ممالک کا یہ بیان حماس پر دباؤ ڈالنے میں ناکام ہے اور موجودہ صورتِ حال موجودہ صورتِ حال میں حماس کے کردار اور ذمے داری کو تسلیم نہیں کرتا۔
اسرائیلی وزیرِ خارجہ گیدون سعر نے کہا ہے کہ ان کی برطانوی وزیرِ خارجہ سے پیر کو گفتگو ہوئی ہے جس میں غزہ سمیت علاقائی صورتِ حال پر تبادلہ خیال کیا گیا۔
اسرائیل میں امریکہ کے سفیر مائیک ہوکابی نے مغربی ممالک کے مشترکہ بیان کو ناگوار قرار دیتے ہوئے کہا ہے اسرائیل کو موردِ الزام ٹھہرانا غیر معقول ہے۔ کیوں کہ حماس نے جنگ ختم کرنے کے ہر منصوبے کو مسترد کیا ہے۔
حماس اسرائیل جنگ بندی مذاکرات
اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ بندی کے مذاکرات جاری ہیں، لیکن تاحال کوئی نمایاں پیش رفت نہیں ہو سکی اور یہ بھی واضح نہیں کہ اگر جنگ بندی ہو بھی جائے تو کیا وہ دیرپا ثابت ہو گی۔اسرائیلی وزیرِاعظم بنیامین نیتن یاہو بارہا کہہ چکے ہیں کہ غزہ میں فوجی کارروائی کا دائرہ بڑھانے سے حماس پر مذاکرات میں دباؤ بڑھے گا۔
برطانوی پارلیمنٹ سے خطاب کرتے ہوئے برطانیہ کے وزیرِ خارجہ ڈیوڈ لیمی نے جنگ کے خاتمے کی کوششوں پر امریکہ، قطر اور مصر کا شکریہ ادا کیا۔
ان کا کہنا تھا کہ ’اس مسئلے کا کوئی فوجی حل نہیں ہے۔ اگلی جنگ بندی، آخری جنگ بندی ہونی چاہیے۔‘
اسرائیل نے یہ جنگ 7 اکتوبر 2023 کو اس وقت شروع کی تھی، جب حماس نے جنوبی اسرائیل پر حملہ کیا، جس میں کم از کم ایک ہزار 129 افراد ہلاک اور 251 کو یرغمال بنا لیا گیا۔ اب بھی 50 یرغمالی غزہ میں موجود ہیں، لیکن اندازہ ہے کہ ان میں سے آدھے سے بھی کم زندہ ہیں۔
دوسری جانب غزہ کی وزارتِ صحت کے مطابق اسرائیلی حملوں میں اب تک 59 ہزار سے زائد فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں، جن میں زیادہ تر خواتین اور بچے شامل ہیں۔