
حکام کے مطابق ملک بھر میں مون سون کے دوران ہلاکتوں کی تعداد اب 688 تک پہنچ گئی ہے۔
پاکستان کے صوبے خیبرپختونخوا میں سیلاب سے سب سے زیادہ متاثرہ ضلع بونیر میں 17 سالہ محمد صدیق اپنے کبھی گھر کے ملبے کے درمیان کھڑے تھے۔ وہ کہتے ہیں کہ ’میں بے بسی سے صرف دیکھ رہا تھا جب میں نے اپنی فیملی اور گھر کا سارا سامان 15 اگست کی تباہ کن سیلاب میں کھو دیا۔‘
یہ کہانی خیبر پختونخوا سے سامنے آنے والے ہزاروں قصوں میں سے صرف ایک ہے، جہاں کئی دن مسلسل شدید بارشوں نے اچانک سیلاب پیدا کر دیے، جس نے پورے گاؤں، پل اور سڑکیں تباہ کر دی اور صرف چار دنوں میں 368 سے زیادہ افراد ہلاک ہو گئے۔
یہ کہانی خیبر پختونخوا سے سامنے آنے والے ہزاروں درد بھری کہانیوں میں سے صرف ایک ہے، جہاں کلاوٴڈ برسٹ کی وجہ سے سیلاب آیا اور سیکڑوں دیہات، پل اور سڑکیں بہا لے گیا اور صرف چار دن میں 368 سے زیادہ جانیں نگل گیا۔
حکام کے مطابق ملک بھر میں مون سون کے دوران ہلاکتوں کی تعداد اب 688 تک پہنچ گئی ہے۔
پاکستان میں کام کرنے والی انسانی ہمدردی کی تنظیم اسلامک ریلیف کی ایمرجنسی ٹیمیں بونیر، سوات اور شانگلہ میں سب سے پہلے پہنچنے والوں میں شامل تھیں۔

علاقے میں فیلڈ آپریشن کی قیادت کرنے والے سید ناہید شاہ نے حالات کو اب تک دیکھے گئے بدترین حالات میں سے ایک قرار دیا۔ انہوں نےٹی آر ٹی ورلڈ کو بتایا کہ ’ہم نے اس سے پہلے کبھی اتنے تباہ کن حالات نہیں دیکھے۔‘
’صرف دو دن میں اسپتال مردہ اور زخمی لوگوں سے بھر گئے تھے۔ لوگ اب بھی لاپتا اہل خانہ کی تلاش میں ہیں۔‘
لاپتا افراد کی تلاش اب بھی ایک بڑا مسئلہ ہے کیونکہ ملبہ، ٹوٹی سڑکیں اور لینڈ سلائیڈنگ امدادی کوششوں میں رکاوٹ بن رہی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ’سڑکیں بند ہیں، انفراسٹرکچر تباہ ہو گیا ہے اور ہر جگہ کیچڑ والا سیلابی پانی ہے۔ دور دراز گاؤں تک پہنچنا انتہائی مشکل ہو گیا ہے، جہاں فوری مدد کی ضرورت ہے۔‘
ایک حکومتی ترجمان نے پیر کو صحافیوں کو تصدیق کی کہ ریسکیو ٹیمیں اور فوج رضاکاروں کے ساتھ لاشیں نکالنے اور لاپتا افراد کی تلاش میں کام کر رہے ہیں۔ بہت سے مقامات پر مقامی لوگ نزدیکی پہاڑوں اور ٹوٹے ہوئے پلوں کی طرف پناہ لینے گئے ہیں۔
چیلنجز کے باوجود امدادی کوششیں جاری
اسلامک ریلیف پاکستان کے کنٹری ڈائریکٹر رضا نریجو نے کہا کہ ان کی ٹیمیں سیلاب کے چند گھنٹوں کے اندر ہی متاثرہ علاقوں میں پہنچ گئی تھیں۔
انہوں نے بتایا کہ ’ہم نے نقصان کا جائزہ لیا اور خواتین اور نومولود بچوں کے لیے گرم کھانے، صاف پینے کا پانی اور حفظان صحت کے کٹس تقسیم کرنا شروع کیے۔‘
’آنے والے دنوں میں ہم باورچی خانے کے برتن اور دیگر ضروری اشیاء بھی تقسیم کرنے کا پلان کر رہے ہیں۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’زرعی زمین تباہ ہو گئی ہے، مویشی مر گئے ہیں اور متاثرہ اضلاع کے تقریباً تمام اسکول نقصان پہنچا ہے۔ جس سے ہزاروں بچے اب سکول نہیں جاسکیں گے‘۔
’پانی کھڑا ہونے سے اور ملبے سے بیماریاں پیدا ہوسکتی ہیں‘۔ انہوں نے کہا کہ متاثرہ اضلاع میں دس ہزار خاندانوں کے لیے خوراک اور پانی، صفائی کی سہولیات، طبی سامان، صحت کی سہولت اور ملبہ ہٹانے اور پناہ گاہ کے سامان کی فوری ضرورت ہے۔
این ڈی ایم اے نے بتایا کہ کے پی میں سینکڑوں گھر، اسکول اور عمارتیں تباہ ہو گئی ہیں۔ وزیراعظم کے دفتر کے مطابق ابتدائی نقصان 4 لاکھ 45 ہزار ڈالر سے زیادہ ہے۔

’ایک ہی رات میں 11 اہل خانہ کو کھودینا کیسا لگتا ہے؟ میری تو زندگی تباہ ہوگئی۔‘
شانگلہ کے گاؤں کوزپاؤ کے مقامی فارماسسٹ شیر اعوان نے بتایا کہ 200 خاندان بنیادی صحت کی معلومات اور ادویات کے لیے ان پر انحصار کرتے تھے، وہ سب سیلاب میں بہہ گئیں۔
انہوں نے بتایا کہ ’میری دکان کی تمام ادویات سیلاب میں ضائع ہو گئیں۔ میں بہت پریشان ہوں کہ اب آگے کیا ہوگا۔‘
انہوں نے اپنی دکان میں تقریباً 7 لاکھ روپے کی ادویات تازہ اسٹاک کی تھیں، جو اب پانی میں ڈوب گئی۔
امدادی کارکن کہتے ہیں کہ ہر سیلاب سے متاثر ہونے والے ہر انسان کی کہانی درد بھری ہے۔
بونیر کے ایک اور رہائشی سید مسعود شاہ نے بتایا کہ ’ایک ہی رات میں 11 اہل خانہ کو کھودیا کیسا لگتا ہے؟ میری تو زندگی تباہ ہوگئی۔ میں بالکل اکیلا ہوگیا ہوں۔‘
ریسکیو اور ریلیف آپریشن جاری
بڑے چیلنجز کے باوجود این ڈی ایم اے کے ساتھ ساتھ الخدمت فاؤنڈیشن اور اسلامک ریلیف سمیت کئی امدادی تنظیمیں متاثرہ علاقوں میں ریلیف سامان پہنچا رہی ہیں۔
ضروریات کا فوری جائزہ لیا جا چکا ہے اور امدادی تقسیم جاری ہے۔ لیکن دن گزرتے جا رہے ہیں اور اگر فوری مدد نہ ملی تو حالات مزید خراب ہو سکتے ہیں۔
’ہم اپنی پوری کوشش کر رہے ہیں، لیکن مزید انسانی وسائل، زیادہ سامان، اور فوری پہنچ کی ضرورت ہے، تاکہ مزید تباہی سے بچا جا سکے۔‘
پاکستان دنیا کے سب سے زیادہ موسمیاتی خطرے والے ممالک میں سے ایک ہے۔ این ڈی ایم اے کے مطابق اس سال کے مون سون کی شدت پچھلے سال کے مقابلے میں 50–60 فیصد زیادہ ہے۔
اچانک سیلاب اور لینڈ سلائیڈز زیادہ عام اور تباہ کن ہوتے جا رہے ہیں۔