
یہ مظاہرے یرغمالوں کی فیملیز کی تنظیم کی جانب سے منعقد کیے گئے ہیں جو پورے ملک میں ہو رہے ہیں۔ یہ تنظیم کافی عرصے سے اسرائیلی حکومت سے مطالبہ کر رہی ہے کہ غزہ میں جنگ فوری بند کی جائے تاکہ ان کے پیارے رہا ہو کر زندہ واپس لوٹ سکیں۔
اسرائیل میں آج پھر غزہ جنگ ختم کرنے اور یرغمالوں کی رہائی کے لیے بڑے مظاہرے ہو رہے ہیں۔ مظاہرین نے ملک بھر میں کئی مرکزی سڑکیں بلاک کر رکھی ہیں اور گاڑیوں کی لمبی قطاریں لگی ہوئی ہیں۔
یہ مظاہرے یرغمالوں کی فیملیز کی تنظیم کی جانب سے منعقد کیے گئے ہیں جو پورے ملک میں ہو رہے ہیں۔ یہ تنظیم کافی عرصے سے اسرائیلی حکومت سے مطالبہ کر رہی ہے کہ غزہ میں جنگ فوری بند کی جائے تاکہ ان کے پیارے رہا ہو کر زندہ واپس لوٹ سکیں۔
آج کا احتجاج مقامی وقت کے مطابق صبح 06:29 بجے شروع ہوا، عین اس وقت حماس نے سات اکتوبر 2023 کو اسرائیل پر حملہ کیا تھا۔
مظاہرین نے تل ابیب میں امریکی سفارت خانے کے باہر اسرائیل کے پرچم لہرائے اور ملک بھر میں کئی مرکزی سڑکیں بلاک کر دیں۔ کئی مقامات پر سڑکوں پر جلاؤ گھیراؤ بھی کیا گیا ہے۔
مظاہرین امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے بھی مطالبہ کر رہے ہیں کہ وہ جنگ بندی کا معاہدہ کرانے میں مدد کریں اور تمام یرغمالوں کو اسرائیل واپس لائیں۔ حماس کے پاس موجود باقی یرغمالوں میں 20 کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ زندہ ہیں۔ پیر کی رات ٹرمپ نے غزہ جنگ سے متعلق بات کرتے ہوئے کہا کہ آئندہ دو، تین ہفتوں میں یہ معاملہ کسی خاتمے کی طرف پہنچ جائے گا۔
دوپہر میں تل ابیب کے ہاسٹیجز اسکوائر پر بھی ایک بڑا احتجاج متوقع ہے۔ کیوں کہ ملک بھر سے آنے والے مظاہرین کو اسی جگہ جمع ہونا ہے۔
اسرائیل میں چند روز پہلے بھی یرغمالوں کی فیملیز کی اپیل پر ایک بڑا مظاہرہ ہوا تھا جس میں لاکھوں افراد نے شرکت کی تھی اور یہی مطالبات دہرائے تھے۔ یہ مظاہرے ایسے وقت میں ہو رہے ہیں جب اسرائیل غزہ میں اپنے حملے بڑھا رہا ہے اور غزہ سٹی پر مکمل قبضے کے لیے زمینی کارروائیاں شروع کر چکا ہے۔
گزشتہ روز اسرائیلی فوج نے خان یونس کے علاقے میں ایک اسپتال پر حملہ کیا جس میں پانچ صحافیوں سمیت 20 افراد مارے گئے۔ اس واقعے کی بڑے پیمانے پر مذمت کی جا رہی ہے اور اسرائیلی فوج کو سخت تنقید کا سامنا ہے۔
جنگ بندی کا تجویز کردہ معاہدہ
غزہ میں جنگ بندی کے لیے قطر اور مصر کی جانب سے 60 دن کے ایک جنگ بندی معاہدے کی تجویز پیش کی گئی ہے جسے حماس نے قبول کر لیا ہے۔ اس معاہدے کے تحت حماس کو آدھے یرغمالوں کو رہا کرنا ہوگا۔ مگر اسرائیل کی جانب سے اس معاہدے پر اب تک کوئی حوصلہ افزا پیش رفت نہیں ہوئی ہے۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق اسرائیل اب صرف ایک جامع معاہدہ چاہتا ہے تاکہ تمام یرغمالوں کو ایک ساتھ واپس لایا جا سکے اور جنگ کو اپنی شرائط پر ختم کیا جا سکے۔
دوسری جانب پیر کو ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا تھا کہ انہوں نے اسرائیلی وزیرِ اعظم بنیامین نیتن یاہو پر زور دیا ہے کہ وہ اس معاملے کو جلد حل کریں۔
وائٹ ہاؤس میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ میرا خیال ہے کہ آئندہ دو، تین ہفتوں میں آپ اس معاملے کا کوئی حتمی انجام دیکھ سکیں گے۔ تاہم ٹرمپ کا یہ بھی کہنا تھا کہ ’اس بارے میں یقینی طور پر کچھ کہنا مشکل ہے۔‘
امریکی صدر نے کہا کہ غزہ میں بہت خراب صورتِ حال ہے۔ وہاں بہت لوگ مارے جا رہے ہیں اور میں اسے حل کرنا چاہتا ہوں۔