انڈین کشمیر میں 25کتابوں پر پابندی، ’کشمیریوں کی یادداشتوں کو ایسے ختم نہیں کیا جا سکتا‘

13:427/08/2025, Perşembe
جنرل7/08/2025, Perşembe
ویب ڈیسک
فائل فوٹو
فائل فوٹو

محکمۂ داخلہ کے مطابق یہ کتابیں نوجوانوں کو گمراہ کرنے، دہشت گردی کو جواز دینے اور بھارتی ریاست کے خلاف تشدد پر اکسانے میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔

انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر میں حکام نے 25 کتابوں پر یہ کہتے ہوئے پابندی لگا دی ہے کہ یہ کتابیں ’غلط بیانیے‘ اور ’علیحدگی پسندی‘ کو فروغ دیتی ہیں۔انڈین کشمیر می حالیہ چند برسوں کے دوران پریس پر کنٹرول سخت ہوا ہے۔

کتابوں کی فروخت یا کتابیں رکھنے پر قید کی سزا کی دھمکی بھی دی گئی ہے۔ جن پر پابندی لگائی گئی ہے ان میں ایکٹیوسٹ اروندھتی رائے، آئینی ماہر اے جی نورانی، اور کئی معروف ادبی شخصیات اور تاریخ دان جیسے سمنترا بوس، کروسٹوفر سنیڈین اور وکٹوریا شوفیلڈ کی کتب شامل ہیں۔

یہ حکم نامہ منگل کو کشمیر کے محکمۂ داخلہ کی طرف سے جاری کیا گیا ہے جو لیفٹننٹ گورنر منوج سنہا کے زیرِ انتظام ہے۔

حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ 25 کتابوں کو ضبط کیا جائے۔ ان کتابوں کو رکھنے اور بیچنے پر پابندی ہوگی۔ جس قانون کے تحت پابندی لگائی گئی ہے اس میں ضبط شدہ مواد پر تین سال سے عمر قید تک کی سزا بھی دی جا سکتی ہے۔ تاہم اس قانون کے تحت ابھی تک کسی کو سزا نہیں ملی ہے۔

پابندی کیوں لگائی گئی ہے؟

محکمۂ داخلہ کے مطابق ان 25 کتابوں میں علیحدگی پسندی کو ہوا دینے اور بھارت کی خودمختاری اور سالمیت کو خطرے میں ڈالنے کے شواہد ملے ہیں۔ یہ کتابیں نوجوانوں کو گمراہ کرنے، دہشت گردی کو جواز دینے، اور بھارتی ریاست کے خلاف تشدد پر اکسانے میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔

محکمۂ داخلہ کے بقول یہ اقدام ’تحقیقات اور معتبر انٹیلی جینس معلومات‘ سامنے آنے کے بعد کیا گیا جن میں معلوم ہوا کہ ’تاریخی اور سیاسی تبصروں کی آڑ میں جھوٹے بیانیے اور علیحدگی پسند لٹریچر کو منظم طریقے سے پھیلایا جا رہا تھا۔‘

’کشمیریوں کی یادداشتوں کو ختم نہیں کیا جا سکتا‘

کشمیر کے معروف رہنما میرواعظ عمر فاروق نے کتابوں پر پابندی کے فیصلے کی مذمت کی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ نامور تاریخ دانوں اور اسکالرز کی کتابوں پر پابندی سے نہ تو تاریخی حقائق مٹائے جا سکتے ہیں اور نہ ہی کشمیری عوام کی یادداشتوں کو ختم کیا جا سکتا ہے۔

میرواعظ نے سوال اٹھایا کہ ایک طرف تو ادب سے وابستگی ظاہر کرنے کے لیے کتب میلہ منعقد کیا جا رہا ہے اور دوسری طرف کتابوں پر پابندی لگائی جا رہی ہے۔

انڈیا میں کتابوں پر پابندی لگانے کی زیادہ مثالیں نہیں ملتیں لیکن نریندر مودی کی حکومت کے دوران میڈیا اداروں پر چھاپوں اور صحافیوں کو قید کرنے کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔ اسکولوں اور یونیورسٹی کی تدریسی کتابوں میں ہندو قوم پرستی پر مبنی بیانیے کو بھی فروغ دینے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

دوسری جانب نصاب میں مسلم مغل حکمرانوں سے متعلق مواد میں ترمیم کر دی گئی ہے یا اسے مکمل طور پر حذف کر دیا گیا ہے۔

گزشتہ سال ایک بھارتی عدالت نے سلمان رشدی کی متنازعہ کتاب پر 1988 میں لگائی گئی پابندی کو ختم کر دیا تھا۔ کیوں کہ عدالت کے مطابق اس پابندی کا کوئی باضابطہ سرکاری حکم نامہ موجود نہیں تھا۔

(یہ تفصیلات اے پی سے لی گئی ہیں)
##انڈیا
##کشمیر
##کتابیں