
دنیا کے موجودہ نقشے کو اگر غلط نہ بھی کہا جائے تو یہ ضرور حقیقت ہے کہ یہ نقشہ ملکوں یا براعظموں کے سائز کی درست عکاسی نہیں کرتا۔ دنیا کے نقشے میں مسئلہ کیا ہے اور افریقی ممالک کو موجودہ نقشے پر کیا اعتراض ہے؟
اگر آپ کو کوئی کہے کہ دنیا کا نقشہ غلط ہے تو آپ کا کیا ردعمل ہوگا؟
کچھ لوگ جو اس بارے میں جانتے ہیں وہ اسے درست ہی سمجھیں گے۔ کیوں کہ دنیا کے موجودہ نقشے کو اگر غلط نہ بھی کہا جائے تو یہ ضرور حقیقت ہے کہ یہ نقشہ ملکوں یا براعظموں کے سائز کی درست عکاسی نہیں کرتا۔
آج جو ورلڈ میپ آپ دیکھتے ہیں یہ 1569 میں ماہر نقشہ نویس جیرارڈر مرکیٹر نے بنایا تھا۔ یہ نقشہ اس وقت سمندری راستے دکھانے کے لیے تیار کیا گیا تھا۔
لیکن اس میں بڑا مسئلہ یہ ہے کہ اس نقشے میں کچھ علاقے جتنے بڑے دکھائے گئے ہیں وہ حقیقت میں اتنے بڑے نہیں ہیں۔ اور جو علاقے چھوٹے دکھائے گئے ہیں وہ حقیقت میں کافی بڑے ہیں۔

کیوں کہ زمین گول ہے اور یہ نقشہ جب کاغذ پر بنایا گیا تو گول دنیا کو ایک چپٹی سطح پر دکھانے کے لیے مرکیٹر پروجیکشن کا طریقہ اپنایا گیا۔ اس سے کچھ علاقوں کا سائز بڑا ہو گیا اور کچھ کا چھوٹا۔

مرکیٹر کے نقشے میں امریکہ کی ریاست الاسکا تقریباً برازیل جتنی بڑی نظر آتی ہے حالاں کہ حقیقت میں الاسکا کا رقبہ برازیل کے رقبے کا صرف 20 فی صد ہے۔ اسی طرح یورپ اور جنوبی امریکہ کا سائز بھی تقریباً برابر دکھایا جاتا ہے لیکن حقیقت میں یورپ جنوبی امریکہ کے سائز سے آدھا ہے۔
اور سب سے بڑا مسئلہ تو افریقہ کا ہے جس پر افریقی ملکوں کو سخت اعتراض بھی ہے۔ افریقہ کا سائز نقشے میں گرین لینڈ کے سائز کے برابر نظر آتا ہے۔ جب کہ حقیقت میں افریقہ گرین لینڈ سے 14 گنا زیادہ بڑا ہے۔ افریقہ کا علاقہ اتنا بڑا ہے کہ اگر امریکہ، چائنہ اور کینیڈا کے کل رقبے کو ملا لیا جائے تب بھی افریقہ زیادہ بڑا ہے۔ لیکن نقشے میں دیکھیں تو ایسا نہیں لگتا۔

افریقی یونین کمیشن کی نائب چیئرپرسن سلمیٰ ملیکہ حدادی نے رائٹرز سے گفتگو میں کہا کہ یہ صرف نقشہ نہیں ہے بلکہ ایک نظریہ ہے جو دنیا کو یہ تاثر دیتا ہے کہ افریقہ ایک کم اہم یا چھوٹا براعظم ہے۔ حالاں کہ یہ رقبے کے لحاظ سے دنیا کا دوسرا سب سے بڑا براعظم ہے، جس میں 54 ممالک اور ایک ارب سے زائد لوگ بستے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ایسے خیالات تعلیم، میڈیا اور پالیسی سازی پر بھی اثر انداز ہوتے ہیں۔
مرکیٹر نقشے پر تنقید کوئی نئی بات نہیں بلکہ یہ بحث صدیوں سے چل رہی ہے۔ لیکن کریکٹ دی میپ کے نام سے چلنے والی نئی مہم نے اس بحث کو ایک بار پھر تازہ کر دیا ہے۔
یہ مہم ’افریقہ نو فلٹر‘ اور ’اسپیک اپ افریقہ‘ نامی غیر سرکاری اداروں کی قیادت میں چلائی جا رہی ہے جس کی اب افریقی یونین نے بھی حمایت کی ہے۔

ایکول ارتھ پروجیکشن 2018 میں بنایا گیا تھا جس کا مقصد تھا کہ نقشے میں مختلف خطوں کو اسی سائز میں دکھانے کی کوشش کی جائے جتنے وہ حقیقت میں ہیں۔ لیکن یہ نقشہ اب تک زیادہ مقبول نہیں ہو سکا ہے اور صدیوں سے رائج مرکیٹر ورلڈ میپ ہی اب بھی چل رہا ہے۔