کیا دنیا کا نقشہ غلط ہے؟

12:2915/08/2025, Cuma
ویب ڈیسک
فائل فوٹو
فائل فوٹو

دنیا کے موجودہ نقشے کو اگر غلط نہ بھی کہا جائے تو یہ ضرور حقیقت ہے کہ یہ نقشہ ملکوں یا براعظموں کے سائز کی درست عکاسی نہیں کرتا۔ دنیا کے نقشے میں مسئلہ کیا ہے اور افریقی ممالک کو موجودہ نقشے پر کیا اعتراض ہے؟

اگر آپ کو کوئی کہے کہ دنیا کا نقشہ غلط ہے تو آپ کا کیا ردعمل ہوگا؟

کچھ لوگ جو اس بارے میں جانتے ہیں وہ اسے درست ہی سمجھیں گے۔ کیوں کہ دنیا کے موجودہ نقشے کو اگر غلط نہ بھی کہا جائے تو یہ ضرور حقیقت ہے کہ یہ نقشہ ملکوں یا براعظموں کے سائز کی درست عکاسی نہیں کرتا۔

آج جو ورلڈ میپ آپ دیکھتے ہیں یہ 1569 میں ماہر نقشہ نویس جیرارڈر مرکیٹر نے بنایا تھا۔ یہ نقشہ اس وقت سمندری راستے دکھانے کے لیے تیار کیا گیا تھا۔

لیکن اس میں بڑا مسئلہ یہ ہے کہ اس نقشے میں کچھ علاقے جتنے بڑے دکھائے گئے ہیں وہ حقیقت میں اتنے بڑے نہیں ہیں۔ اور جو علاقے چھوٹے دکھائے گئے ہیں وہ حقیقت میں کافی بڑے ہیں۔

کیوں کہ زمین گول ہے اور یہ نقشہ جب کاغذ پر بنایا گیا تو گول دنیا کو ایک چپٹی سطح پر دکھانے کے لیے مرکیٹر پروجیکشن کا طریقہ اپنایا گیا۔ اس سے کچھ علاقوں کا سائز بڑا ہو گیا اور کچھ کا چھوٹا۔

اگرچہ آج کی ڈیجیٹل دنیا میں تو ممکن ہے کہ زمین کو ایک تھری ڈی گلوب کی شکل میں دکھایا جائے جیسے گوگل ارتھ میں ہوتا ہے۔ لیکن اب بھی زیادہ تر ڈیجیٹل نقشے کسی نہ کسی شکل میں مرکیٹر پروجیکشن کا ہی استعمال کرتے ہیں۔

مرکیٹر کے نقشے میں امریکہ کی ریاست الاسکا تقریباً برازیل جتنی بڑی نظر آتی ہے حالاں کہ حقیقت میں الاسکا کا رقبہ برازیل کے رقبے کا صرف 20 فی صد ہے۔ اسی طرح یورپ اور جنوبی امریکہ کا سائز بھی تقریباً برابر دکھایا جاتا ہے لیکن حقیقت میں یورپ جنوبی امریکہ کے سائز سے آدھا ہے۔

اور سب سے بڑا مسئلہ تو افریقہ کا ہے جس پر افریقی ملکوں کو سخت اعتراض بھی ہے۔ افریقہ کا سائز نقشے میں گرین لینڈ کے سائز کے برابر نظر آتا ہے۔ جب کہ حقیقت میں افریقہ گرین لینڈ سے 14 گنا زیادہ بڑا ہے۔ افریقہ کا علاقہ اتنا بڑا ہے کہ اگر امریکہ، چائنہ اور کینیڈا کے کل رقبے کو ملا لیا جائے تب بھی افریقہ زیادہ بڑا ہے۔ لیکن نقشے میں دیکھیں تو ایسا نہیں لگتا۔

اسی وجہ سے افریقی ممالک کی تنظیم ’افریقی یونین‘ نے ایک ایسی مہم کی حمایت کی ہے جس کا مقصد حکومتوں اور بین الاقوامی اداروں کو مرکیٹر نقشے کی جگہ ایک ایسا نقشہ اپنانے پر آمادہ کرنا ہے جو افریقہ کے اصل سائز کو درست طریقے سے ظاہر کرتا ہو۔

افریقی یونین کمیشن کی نائب چیئرپرسن سلمیٰ ملیکہ حدادی نے رائٹرز سے گفتگو میں کہا کہ یہ صرف نقشہ نہیں ہے بلکہ ایک نظریہ ہے جو دنیا کو یہ تاثر دیتا ہے کہ افریقہ ایک کم اہم یا چھوٹا براعظم ہے۔ حالاں کہ یہ رقبے کے لحاظ سے دنیا کا دوسرا سب سے بڑا براعظم ہے، جس میں 54 ممالک اور ایک ارب سے زائد لوگ بستے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ایسے خیالات تعلیم، میڈیا اور پالیسی سازی پر بھی اثر انداز ہوتے ہیں۔

مرکیٹر نقشے پر تنقید کوئی نئی بات نہیں بلکہ یہ بحث صدیوں سے چل رہی ہے۔ لیکن کریکٹ دی میپ کے نام سے چلنے والی نئی مہم نے اس بحث کو ایک بار پھر تازہ کر دیا ہے۔

یہ مہم ’افریقہ نو فلٹر‘ اور ’اسپیک اپ افریقہ‘ نامی غیر سرکاری اداروں کی قیادت میں چلائی جا رہی ہے جس کی اب افریقی یونین نے بھی حمایت کی ہے۔

یہ مہم چلانے والے مطالبہ کر رہے ہیں کہ 2018 میں بنائے گئے ایکول ارتھ پروجیکشن کو اپنایا جائے جو ممالک کے سائز کو زیادہ حقیقت پسندانہ طریقے سے ظاہر کرتا ہے۔

ایکول ارتھ پروجیکشن 2018 میں بنایا گیا تھا جس کا مقصد تھا کہ نقشے میں مختلف خطوں کو اسی سائز میں دکھانے کی کوشش کی جائے جتنے وہ حقیقت میں ہیں۔ لیکن یہ نقشہ اب تک زیادہ مقبول نہیں ہو سکا ہے اور صدیوں سے رائج مرکیٹر ورلڈ میپ ہی اب بھی چل رہا ہے۔

##ورلڈ میپ
##دنیا
##نقشہ