
زیلنسکی اور ٹرمپ کی پچھلی ملاقات خاصی ناخوشگوار رہی تھی اور دونوں رہنماؤں کے درمیان میڈیا کے سامنے تلخی اور تکرار ہوئی تھی۔ مگر اس بار یوکرینی صدر نے واشنگٹن پہنچ کر کہا کہ وہ ٹرمپ کی دعوت پر شکر گزار ہیں۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے یوکرین کو کہا ہے کہ وہ کرائیمیا کو واپس حاصل کرنے اور نیٹو میں شامل ہونے کا خیال دل سے نکال دے۔ یہ بیان ایسے وقت پر دیا گیا ہے جب ٹرمپ پیر کو یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی اور یورپی رہنماؤں سے ملاقات کرنے جا رہے ہیں تاکہ یوکرین کو روس کے ساتھ امن معاہدہ کرنے پر راضی کیا جا سکے۔
ٹرمپ نے جمعے کو امریکی ریاست الاسکا میں روسی صدر پوتن کا شاندار استقبال کیا تھا اور ان سے تین گھنٹے طویل ملاقات کی تھی۔ لیکن اس ملاقات میں یوکرین جنگ سے متعلق کوئی بڑی پیش رفت نہیں ہو سکی تھی۔ اب ٹرمپ کی توجہ یوکرین پر ہے اور وہ یوکرینی صدر سے وائٹ ہاؤس میں آج ملاقات کریں گے۔
وائٹ ہاؤس کے مطابق پیر کو ٹرمپ پہلے زیلنسکی سے ملیں گے اور اس کے بعد برطانیہ، فرانس، اٹلی، فن لینڈ، یورپی یونین اور نیٹو کے رہنماؤں سے بھی ملاقات کریں گے۔ یورپی رہنما یوکرین سے اظہارِ یک جہتی اور جنگ بندی کی صورت میں یوکرین کے لیے مضبوط سیکیورٹی گارنٹی کی حمایت کے لیے واشنگٹن آ رہے ہیں۔
ٹرمپ کی ٹیم کا کہنا ہے کہ معاہدے کے لیے دونوں فریقین کو لچک دکھانا ہوگی۔ لیکن ٹرمپ نے اپنے حالیہ بیان میں زیادہ ذمّے داری یوکرین کے صدر زیلنسکی پر ڈال دی ہے کہ وہ جنگ ختم کریں۔
ٹرمپ نے اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ٹروتھ سوشل پر کہا کہ ’زیلنسکی چاہیں تو جنگ فوراً ختم کر سکتے ہیں۔ ورنہ وہ لڑائی جاری رکھ سکتے ہیں۔ یہ یاد رکھنا چاہیے کہ یہ سب شروع کیسے ہوا تھا۔‘

واضح رہے کہ روس نے 2014 میں کرائیمیا کے علاقے پر قبضہ کر کے ایک متنازع ریفرنڈم کے ذریعے اسے روس میں شامل کر لیا تھا۔
یوکرین اور اس کے اتحادی یہ خدشہ ظاہر کرتے رہے ہیں کہ ٹرمپ ایسا معاہدہ کرائیں گے جو روس کے حق میں ہوگا۔ تاہم انہیں کچھ امید اس بات سے ملی ہے کہ ٹرمپ امن معاہدے کے بعد یوکرین کو سیکیورٹی گارنٹی دینے پر آمادہ نظر آتے ہیں۔
مگر یوکرینی صدر زیلنسکی نے پوتن کی طرف سے الاسکا میں دی گئی امن تجاویز کو تقریباً مسترد کر دیا ہے۔ جن میں انہوں نے یوکرین سے مطالبہ کیا تھا کہ مشرقی دونیتسک کا مکمل کنٹرول روس کے حوالے کر دے۔ دونیتسک مشرقی یوکرین میں واقع ایک علاقہ ہے جسے 2022 میں جنگ شروع ہونے کے بعد روس نے اپنے علاقے میں ضم کر لیا ہے۔ تاہم اب بھی اس کے کچھ علاقوں پر یوکرین کا کنٹرول ہے۔
زیلنسکی چاہتے ہیں کہ پہلے جنگ بندی ہو اور پھر مستقل امن کے لیے تفصیلی مذاکرات کیے جائیں۔ ٹرمپ بھی پہلے اس پر متفق تھے لیکن پوتن سے ملاقات کے بعد ان کا مؤقف بدل گیا اور اب وہ روس کے مؤقف کی طرف جھکاؤ ظاہر کر رہے ہیں۔ یعنی جنگ جاری رکھتے ہوئے ہی امن معاہدہ کرنا۔
زیلنسکی اور ٹرمپ کی پچھلی ملاقات خاصی ناخوشگوار رہی تھی اور دونوں رہنماؤں کے درمیان میڈیا کے سامنے تلخی اور تکرار ہوئی تھی۔ مگر اس بار یوکرینی صدر نے واشنگٹن پہنچ کر کہا کہ وہ ٹرمپ کی دعوت پر شکر گزار ہیں۔
زیلنسکی کا کہنا تھا کہ ہم سب چاہتے ہیں کہ یہ جنگ جلد اور پائیدار طریقے سے ختم ہو۔ روس نے یہ جنگ شروع کی ہے اور اسی کو ختم بھی کرنی ہوگی۔ ہمیں امید ہے کہ امریکا اور یورپی اتحادیوں کے ساتھ مل کر ہم روس کو حقیقی امن پر مجبور کریں گے۔‘