اسرائیل کی سیکیورٹی کابینہ نے غزہ سٹی پر مکمل کنٹرول کی منظوری دے دی

10:008/08/2025, جمعہ
جنرل8/08/2025, جمعہ
ویب ڈیسک
غزہ کے تباہ حال علاقے کا ایک منظر
غزہ کے تباہ حال علاقے کا ایک منظر

اسرائیلی وزیرِ اعظم بنیامین نیتن یاہو کے دفتر سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ اسرائیلی فوج غزہ سٹی کا کنٹرول لینے کی تیاری کریں گی اور شہری آبادی کو امداد کی فراہمی بھی جاری رکھیں گی۔

اسرائیل کی سیکیورٹی کابینہ نے جمعے کو غزہ سٹی پر مکمل کنٹرول کا منصوبہ منظور کر لیا ہے۔

اسرائیلی وزیرِ اعظم بنیامین نیتن یاہو کے دفتر سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ اسرائیلی فوج غزہ سٹی کا کنٹرول لینے کی تیاری کریں گی اور شہری آبادی کو امداد کی فراہمی بھی جاری رکھیں گی۔

بیان میں کہا گیا ہے کہ سیاسی و سیکیورٹی کابینہ کے اراکین کی بڑی تعداد کا ماننا ہے کہ کابینہ کے سامنے جو اس کا متبادل منصوبہ پیش کیا گیا وہ نہ تو حماس کی شکست تو یقینی بنائے گا نہ یرغمالوں کی واپسی کو۔

بعض رپورٹس کے مطابق منصوبے میں غزہ سٹی سے فلسطینیوں کا انخلا کرا کر زمینی آپریشن شروع کیا جائے گا۔

یہ واضح نہیں کہ غزہ سٹی میں ابھی کتنے لوگ رہ رہے ہیں جنہیں وہاں سے انخلا کرنا ہوگا۔ غزہ سٹی جنگ سے پہلے غزہ کی پٹی کا سب سے بڑا شہر تھا۔ 2023 میں جب جنگ شروع ہوئی تو اسرائیل نے اس شہر سے انخلا کے احکامات جاری کیے تھے جس کے بعد ہزاروں افراد نے نقل مکانی کی تھی۔ تاہم رواں سال کے آغاز میں جب اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ بندی ہوئی تو بہت سے لوگ واپس لوٹ آئے تھے۔

دو حکومتی ذرائع نے رائٹرز کو بتایا ہے کہ سیکیورٹی کابینہ کی طرف سے کیے گئے کسی بھی فیصلے کو پوری کابینہ سے منظور کرانا لازمی ہوتا ہے اور کابینہ کا اجلاس اتوار تک نہیں ہو سکتا۔

نیتن یاہو نے جمعرات کو کہا تھا کہ اسرائیل پوری غزہ کی پٹی پر مکمل ملٹری کنٹرول کا ارادہ رکھتا ہے۔ تاہم جمعے کو صرف غزہ سٹی پر کنٹرول کی منظوری دی گئی ہے۔

نیتن یاہو نے جمعرات کو امریکی ٹی وی فوکس نیوز پر انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ اسرائیل غزہ کو خود نہیں رکھنا چاہتا بلکہ عرب فورسز کے حوالے کرنا چاہتا ہے جو اس کا انتظام سنبھالے، غزہ کے شہریوں کو اچھی زندگی دے اور جو ہمارے لیے خطرہ نہ بنے۔ تاہم انہوں نے یہ واضح نہیں کیا کہ کون سے عرب ممالک اس منصوبے میں شامل ہو سکتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم اپنی سیکیورٹی کے لیے حماس کو غزہ سے ختم کرنا چاہتے ہیں۔

اردن کے ایک اعلیٰ عہدے دار نے رائٹرز کو بتایا ہے کہ عرب ممالک صرف اسی حل کی حمایت کریں گے جس پر فلسطینی راضی ہوں اور جو وہ فیصلہ کریں۔ ان کا کہنا تھا کہ غزہ میں سیکیورٹی جائز فلسطینی اداروں کے ذریعے ہی سنبھالی جانی چاہیے۔

واضح رہے کہ حماس نیتن یاہو کے ان بیانات کو مذاکراتی عمل کے خلاف بغاوت قرار دے چکی ہے۔ حماس نے کہا ہے کہ نیتن یاہو کا غزہ میں جارحانہ کارروائیاں بڑھانے کے منصوبے سے ایک چیز بالکل واضح ہوجاتی ہے کہ وہ یرغمالوں کو قربان کر کے ان سے چھٹکارا حاصل کرنا چاہتے ہیں۔

حماس کے ایک عہدے دار اسامہ حمدان الجزیرہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہہ چکے ہیں کہ وہ غزہ پر حکمرانی کے لیے قائم کی جانے والی کسی بھی ایسی فورس کو ’قابض فورس‘ تصور کریں گے جو اسرائیل سے منسلک ہو۔

واضح رہے کہ اسرائیلی وزیرِ اعظم اور ان کے انتہائی دائیں بازو کے اتحادیوں کی جانب سے غزہ پر مکمل قبضے کے منصوبے کے خلاف اسرائیل کے اندر سے بھی آوازیں اٹھ رہی ہیں۔ رواں ہفتے بعض اسرائیلی حکام نے بتایا تھا کہ اسرائیل کے آرمی چیف نے بھی اس منصوبے کی مخالفت کی تھی۔

رائے عامہ کے جائزوں سے معلوم ہوتا ہے کہ زیادہ تر اسرائیلی اب جنگ کا خاتمہ چاہتے ہیں کسی ایسی ڈیل کے نتیجے میں جس سے یرغمالوں کی رہائی ممکن ہو سکے۔

وائٹ ہاؤس کی جانب سے اس فیصلے پر اب تک کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا ہے۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اس معاملے پر کوئی تبصرہ کرنے سے گریز کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ فیصلہ اسرائیل کو کرنا ہے۔ البتہ اقوامِ متحدہ اسرائیل کے ملٹری آپریشن کو پورے غزہ میں پھیلانے کی خبروں کو انتہائی تشویش ناک قرار دے چکی ہے۔

##اسرائیل
##غزہ
##قبضہ