
ملاقات میں یوکرین کے صدر ولودومیر زیلنسکی کو نہیں بلایا گیا جس پر یورپی ممالک اور یوکرین میں یہ خدشات ہیں کہ ان دونوں کے درمیان کوئی ایسا معاہدہ طے نہ پا جائے جو یوکرین کے لیے قابلِ قبول نہ ہو۔
امریکہ کے اور روس کے صدور یوکرین جنگ کے معاملے پر آج یعنی جمعے کو ملاقات کریں گے۔ ڈونلڈ ٹرمپ اور ولادیمیر پوتن کی ملاقات امریکی ریاست الاسکا کے ایک فضائی اڈے میں مقامی وقت کے مطابق صبح گیارہ بجے شیڈیول ہے۔
ڈونلڈ ٹرمپ کی دوسری مدتِ صدارت میں ان کی روسی صدر کے ساتھ یہ پہلی ملاقات ہوگی۔ جہاں ٹرمپ کو امید ہے کہ وہ روس یوکرین جنگ ختم کرانے کے لیے کسی بڑی پیش رفت میں کامیاب ہو جائیں گے وہیں یورپ اور یوکرین میں اس ملاقات کے بارے میں خدشات پائے جاتے ہیں۔
ملاقات میں یوکرین کے صدر ولودومیر زیلنسکی کو نہیں بلایا گیا جس پر یورپی ممالک اور یوکرین میں یہ خدشات ہیں کہ ان دونوں کے درمیان کوئی ایسا معاہدہ طے نہ پا جائے جو یوکرین کے لیے قابلِ قبول نہ ہو۔
تاہم بدھ کو یوکرینی صدر اور ان کے اتحادی یورپی رہنماؤں کا ٹیلی فونک رابطہ ہوا جس میں انہوں نے کہا کہ ٹرمپ اس بات پر متفق ہیں کہ زمین چھوڑنے سے متعلق کسی بھی مذاکرات میں یوکرین کی شمولیت لازمی ہوگی۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی انتخابی مہم کے دوران کئی بار یہ کہا تھا کہ وہ صدر بنے تو روس اور یوکرین کی جنگ صرف 24 گھنٹوں میں ختم کرا دیں گے۔ تاہم ایسا ہو نہیں سکا اور جمعرات کو ٹرمپ نے اعتراف کیا کہ ساڑھے تین سال سے جاری یہ تنازع ان کی توقع سے زیادہ پیچیدہ ثابت ہوا ہے۔
ٹرمپ نے کہا ہے کہ انہیں لگتا ہے پوتن یوکرین پر کوئی معاہدہ کرنے پر آمادہ ہو سکتے ہیں۔ لیکن ٹرمپ خود اس بارے میں کبھی پرامید اور کبھی مایوس کن بیانات دیتے رہے ہیں۔
امریکی صدر کا کہنا تھا کہ اگر روسی صدر کے ساتھ ان کی ملاقات اچھی رہی تو وہ یوکرین کے صدر زیلنسکی کے ساتھ سہ فریقی اجلاس بھی طے کریں گے جو اس ملاقات سے زیادہ اہم ہوگی۔
دوسری جانب پوتن نے امریکی کوششوں کو سراہتے ہوئے کہا ہے کہ یہ جنگ ختم کرنے کی ’مخلصانہ کوششیں‘ ہیں۔
رائٹرز کے مطابق روس کے قریبی ذرائع کا کہنا ہے کہ بظاہر ایسا لگتا ہے کہ دونوں فریق پہلے ہی کسی مشترکہ نکتے پر متفق ہو چکے ہیں۔
یوکرینی صدر زیلنسکی نے پوتن پر الزام عائد کیا ہے کہ وہ صرف وقت حاصل کرنے کے لیے چالاکیاں دکھا رہے ہیں تاکہ امریکہ کی مزید پابندیوں سے بچ سکیں۔ زیلنسکی نے کسی بھی یوکرینی علاقے کو روس کے حوالے کرنے کا امکان بھی رد کیا ہے۔
دوسری جانب، ٹرمپ کا کہنا ہے کہ روس اور یوکرین کے درمیان زمین کی لین دین ایک ممکنہ راستہ ہو سکتا ہے جس سے دونوں کے درمیان ڈیڈ لاک ٹوٹ سکے۔
روس اور یوکرین چاہتے کیا ہیں؟
روسی افواج اس وقت یوکرین کے تقریباً 20 فیصد حصے پر قابض ہیں۔ پوتن چاہتے ہیں کہ ٹرمپ روس اور امریکہ کے اقتصادی، سیاسی اور تجارتی تعلقات کو بحال کرنا شروع کریں اور اسے یوکرین میں پیش رفت سے مشروط نہ کریں۔
پوتن کے بنیادی جنگی مقاصد میں یوکرین کے صنعتی علاقے ’ڈونباس‘ پر مکمل کنٹرول شامل ہے جس میں دونیتسک اور لوہانسک کے علاقے آتے ہیں۔ اگرچہ روسی افواج نے یہاں پیش رفت کی ہے لیکن اب بھی تقریباً 25 فیصد دونیتسک روسی کنٹرول سے باہر ہے۔
اس کے علاوہ پوتن یوکرین کے خیرسون اور زاپوریزژیا کے علاقوں پر بھی مکمل کنٹرول چاہتے ہیں۔ وہ یوکرین کے لیے نیٹو کی رکنیت کے امکان کو مکمل طور پر ختم کرنا اور یوکرین کی افواج کی تعداد اور صلاحیت پر پابندیاں بھی لگانا چاہتے ہیں۔
یوکرین نے ان تمام شرائط کو ناقابل قبول قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ یہ دراصل اسے ہتھیار ڈالنے پر مجبور کرنے کے مترادف ہے۔
(اس خبر میں شامل بعض تفصیلات رائٹرز سے لی گئی ہیں)