گلیشیئر کے پگھلنے سے انٹارکٹیکا میں 66 سال پہلے لاپتا برطانوی شخص کی باقیات مل گئیں

13:1612/08/2025, منگل
جنرل12/08/2025, منگل
AFP
ڈینس اور تین ساتھی گلیشیئر کا سروے کرنے نکلے تھے کہ وہ برف میں ایک گہری دراڑ میں گر گئے پھر ان کی لاش کبھی نہیں مل سکی۔
ڈینس اور تین ساتھی گلیشیئر کا سروے کرنے نکلے تھے کہ وہ برف میں ایک گہری دراڑ میں گر گئے پھر ان کی لاش کبھی نہیں مل سکی۔

برطانوی انٹارکٹک سروے کے مطابق 1959 میں انٹارکٹیکا میں سائنسی مہم کے دوران ہلاک ہونے والے برطانوی شخص کی باقیات 6 دہائیوں بعد ایک گلیشیئر سے مل گئی ہیں۔

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق ڈی این اے ٹیسٹ سے تصدیق ہوئی کہ یہ باقیات 25 سالہ برطانوی شہری ڈینس بیل کی ہیں، جو فاک لینڈ آئی لینڈز ڈپینڈینسیز سروے (جسے بعد میں برٹش انٹارکٹک سروے کہا گیا) کے لیے کام کر رہے تھے۔

ڈینس 26 جولائی 1959 کو کنگ جارج آئی لینڈ کے ساحلی علاقے ایڈمرلٹی بے پر ہلاک ہوئے تھے، جو انٹارکٹیکا کے ساحل سے تقریباً 120 کلومیٹر دور واقع ہے۔ وہ دو سال کے ایک اسائنمنٹ پر وہاں تعینات تھے۔

ڈینس اور تین ساتھی گلیشیئر کا سروے کرنے نکلے تھے کہ وہ برف میں ایک گہری دراڑ میں گر گئے پھر ان کی لاش کبھی نہیں مل سکی۔

گلیشیئرز پگھلنے کی وجہ سے ان کی باقیات منظر عام پر آئیں اور 19 جنوری کو ہینرِک آرکٹوسکی پولش انٹارکٹک اسٹیشن کی ٹیم نے اسے دریافت کیے۔

ڈینس بیل 1934 میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے رائل ایئر فورس کے ساتھ کام کیا اور ماہر موسمیات کی تربیت حاصل کی، اس کے بعد وہ فاک لینڈ آئی لینڈز ڈپینڈینسیز سروے میں شامل ہوئے تاکہ انٹارکٹیکا میں کام کر سکیں۔

بی اے ایس کی ڈائریکٹر جین فرانسس نے کہا کہ ’ان کی باقیات کی دریافت کی وجہ سے کئی دہائیوں پرانے معمہ کو حل ہوگیا اور ہمیں انٹارکٹک سائنس کی تاریخ میں پوشیدہ انسانی کہانیاں یاد دلاتی ہے۔‘

ڈینس کے بھائی ڈیوڈ بیل نے کہا کہ 66 سال بعد اپنے بھائی کی باقیات ملنے کی خبر سن کر وہ اور ان کی بہن کو ’حیران‘ ہیں۔

ڈیوڈ نے کہا کہ ’ڈینس تین بہن بھائیوں میں سب سے بڑے تھے اور میرے لیے ہیرو تھے کیونکہ وہ ہر کام کرنے کی صلاحیت رکھتے تھے۔‘

ڈینس کی باقیات کے ساتھ پولش ٹیم کو اس کی ذاتی چیزیں بھی ملی، جن میں ریڈیو کا سامان، ٹارچ، کلائی پر پہنی گئی ایک گھڑی جس پر کچھ لکھا ہوا تھا اور سویڈن کے ایک برانڈ کا چاقو شامل تھے۔

ڈینس کے جسم کی باقیات بی اے ایس کے ریسرچ شپ سر ڈیوڈ ایٹن بورو کے ذریعے فاک لینڈ پہنچائے گئے اور پھر ڈی این اے ٹیسٹ کے لیے لندن لے جائے گئے۔

ماحولیاتی تبدیلی کی وجہ سے انٹارکٹک کے بہت سے گلیشیئرز میں شدید تبدیلیاں آ رہی ہیں، جن میں ایکولوجی گلیشیئر بھی شامل ہے جو تیزی سے پگھل رہا ہے۔

پولش انٹارکٹک اسٹیشن کی ٹیم نے بتایا کہ ’وہ جگہ جہاں ڈینس کی باقیات ملی ہیں، وہ وہی جگہ نہیں جہاں وہ لاپتا ہوئے تھے۔‘

’گلیشیئرز اپنی بھاری برف کے بڑے بڑے ٹکڑوں کو زمین کی گریویٹی کی وجہ سے آہستہ آہستہ حرکت دیتے ہیں۔ کیونکہ ڈینس گلیشیئر پر گر گئے تھے، اس لیے وہ بھی برف کے اس بہاؤ کے ساتھ ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچ گئے‘۔


یہ بھی پڑھیں:



#موسمیاتی تبدیلی
#برطانیہ
#انٹارکٹیکا