
اپوزیشن جماعتوں اور بعض تنظیموں کا کہنا ہے کہ ووٹر لسٹوں میں تبدیلی جلد بازی میں کی گئی ہے۔ ان فہرستوں میں غلط تصویریں شامل کی گئی ہیں اور بڑی تعداد میں ایسے لوگوں کا نام بھی لسٹوں میں شامل ہے جو وفات پا چکے ہیں۔
انڈیا کی اپوزیشن جماعتوں نے پیر کو دارالحکومت نئی دہلی میں ایک بڑا احتجاج کیا ہے جس میں ووٹ چوری کے الزامات کی تحقیقات اور ریاست بہار میں ووٹر لسٹوں میں کی گئی متنازع تبدیلی کو واپس لینے کے مطالبات کیے گئے۔
بہار انڈیا کی غریب ریاستوں میں شمار ہوتی ہے جہاں تین ماہ بعد نومبر میں ریاستی انتخابات ہونے والے ہیں۔ اپوزیشن جماعتوں کا کہنا ہے کہ ووٹر لسٹوں میں کی گئی تبدیلیوں سے لاکھوں افراد ووٹ ڈالنے کے حق سے محروم ہو سکتے ہیں۔
پیر کو نئی دہلی میں ہونے والے احتجاج میں سیکڑوں ارکانِ پارلیمنٹ اور ان کے حامی شریک تھے۔ پارلیمنٹ سے شروع ہونے والا مارچ الیکشن کمیشن کے دفتر کی جانب جا رہا تھا لیکن پولیس نے انہیں راستے میں روک لیا۔
اس دوران کچھ اپوزیشن رہنماؤں کو حراست میں بھی لیا گیا جن میں اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر اور کانگریس کے رہنما راہل گاندھی بھی شامل تھے۔
احتجاج ہو کیوں رہا ہے؟
انڈیا کے الیکشن کمیشن نے چند روز پہلے بہار میں ہونے والے انتخابات سے قبل عبوری ووٹر لسٹیں جاری کی تھیں۔ یہ لسٹیں الیکشن کمیشن کی جانب سے 25 جون سے 26 جولائی تک یعنی ایک ماہ تک کی جانے والی نظرِ ثانی کے بعد شائع کی گئی تھیں۔ اس عمل کو ’ایس آئی آر‘ کا نام دیا گیا تھا۔
الیکشن کمیشن کے مطابق اس عمل کے دوران بہار کے سات کروڑ 89 لاکھ ووٹروں کے گھروں میں جا کر ان کا ڈیٹا چیک کیا گیا اور اس کے مطابق ووٹر لسٹ کو اپ ڈیٹ کیا گیا۔ الیکشن کمیشن کا کہنا ہے کہ آخری بار ووٹر لسٹوں پر نظر ثانی 2003 میں کی گئی تھی اور اب انہیں اپ ڈیٹ کرنا ضروری تھا۔
لیکن اپوزیشن جماعتوں اور بعض تنظیموں کا کہنا ہے کہ یہ عمل جلد بازی میں مکمل کیا گیا ہے۔ یہ دعوے بھی سامنے آئے ہیں کہ ان فہرستوں میں غلط تصویریں شامل کی گئی ہیں اور بڑی تعداد میں ایسے لوگوں کا نام بھی لسٹوں میں شامل ہے جو وفات پا چکے ہیں۔
نئی ووٹر لسٹ میں سات کروڑ 24 لاکھ ووٹرز کے نام ہیں جو پچھلی فہرست سے 65 لاکھ کم ہیں۔ الیکشن کمیشن کا کہنا ہے کہ ان 65 لاکھ افراد میں سے 22 لاکھ مر چکے ہیں۔ سات لاکھ ووٹر ایسے تھے جن کے نام دو بار درج تھے جب کہ 36 لاکھ ووٹر بہار چھوڑ کر دوسری ریاستوں میں منتقل ہو چکے ہیں۔
لیکن اپوزیشن جماعتوں کا الزام ہے کہ الیکشن کمیشن نے حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کو فائدہ پہنچانے کے لیے جان بوجھ کر ووٹروں کے نام فہرستوں سے نکالے ہیں۔ خاص طور پر ان مسلمان ووٹرز کے جو بہار کے سرحدی اضلاع میں بڑی تعداد میں رہتے ہیں۔
اپوزیشن جماعتوں کا کہنا ہے کہ نئی ووٹر لسٹ میں شامل ہونے کے لیے سخت شرائط رکھی گئی ہیں جیسے برتھ سرٹیفکیٹ، پاسپورٹ اور میٹرک کی ڈگری جیسے ڈاکیومنٹس مانگے گئے ہیں جو بہار جیسے کم شرحِ خواندگی والے علاقے میں اکثر لوگوں کے پاس نہیں ہوتے۔
انڈیا میں قومی شناختی کارڈ نہیں ہوتا۔ یہاں عام طور پر زیادہ تر سرکاری کاموں کے لیے بائیومیٹرک شناختی کارڈ ’آدھار کارڈ‘ استعمال ہوتا ہے۔ لیکن بہار میں ووٹر لسٹ کی تصدیق کے لیے جو ڈاکیومنٹس جمع کرائے جا سکتے تھے، ان میں آدھار کارڈ شامل نہیں تھا۔
اپوزیشن کا کہنا ہے کہ اس سے خاص طور پر غریب طبقہ، اقلیتیں، اور مسلمان شدید متاثر ہوں گے اور ان کے ووٹ ڈالنے کا حق ان سے چھن سکتا ہے۔
ان فہرستوں کے خلاف سپریم کورٹ سے بھی رجوع کیا گیا ہے جو اس معاملے کی سماعت کر رہا ہے۔
ووٹ چوری کے الزامات
راہول گاندھی نے گزشتہ ہفتے ریاست کرناٹک سے اپنی جماعت کانگریس کی ایک رپورٹ پیش کی جس میں الزام لگایا گیا کہ 2024 کے عام انتخابات میں ایک اسمبلی نشست پر تقریباً ایک لاکھ جعلی ووٹ ڈالے گئے۔
انہوں نے دعویٰ کیا تھا کہ لوک سبھا انتخابات اور مہاراشٹرا اور ہریانہ کے اسمبلی انتخابات میں ووٹر لسٹ میں بڑے پیمانے پر دھاندلی ہوئی ہے۔
انھوں نے کہا کہ ’مشین ریڈ ایبل ووٹر لسٹ فراہم نہ کرنا اس بات کا ثبوت ہے کہ الیکشن کمیشن نے مہاراشٹرا میں ووٹ چوری کرنے کے لیے بی جے پی کے ساتھ ملی بھگت کی ہے۔‘
الیکشن کمیشن نے راہل گاندھی کے الزامات کو ’گمراہ کن‘ قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا تھا۔ کمیشن نے کہا ہے کہ وہ اپنی شکایت کرناٹک کے چیف الیکٹورل آفیسر کو تحریری طور پر دیں۔
الیکشن کمیشن کیا کہتا ہے؟
الیکشن کمیشن نے اپوزیشن کے الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس نے یقینی بنایا ہے کہ کسی بھی ووٹر کا نام لسٹ میں شامل ہونے سے نہ رہ جائے۔
کمیشن کے مطابق ووٹر لسٹ پر نظرِ ثانی معمول کی مشق ہے جس کا مقصد ووٹروں کی فہرست کو درست اور اپ ڈیٹ کرنا ہے تاکہ اس میں غیر قانونی تارکین وطن کے نام شامل نہ ہوں۔
الیکشن کمیشن نے کہا کہ 2003 میں جن 4.96 کروڑ ووٹرز نے رجسٹریشن کرا لی تھی انہیں دوبارہ کوئی ڈاکیومنٹس جمع کرانے کی ضرورت نہیں۔ لیکن باقی تقریباً تین کروڑ ووٹر اب بھی خطرے کی زد میں آ سکتے ہیں۔
الیکشن کمیشن نے کہا ہے کہ اسی طرح کی ووٹر لسٹوں کی نظرثانی پورے ملک میں کی جائے گی۔
بہار کیوں اہم ہے؟
بہار بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے لیے ایک اہم ریاست ہے جہاں وہ کبھی اکیلے حکومت نہیں بنا سکی اور ہمیشہ اتحادیوں کے ساتھ اقتدار میں آئی ہے۔ یہاں کے انتخابات کے نتائج مرکز میں بی جے پی کی طاقت پر بھی اثر ڈال سکتے ہیں۔
بی جے پی نے ووٹر لسٹ میں ترمیم کی حمایت کی ہے اور کہا ہے کہ اس کا مقصد ووٹر لسٹ کو اپڈیٹ کرنا، فوت شدہ یا دوسری ریاستوں میں منتقل ہونے والے افراد کے نام نکالنا، اور بنگلہ دیش سے آنے والے غیر قانونی مسلم تارکینِ وطن کے نام ووٹر لسٹوں سے خارج کرنا ہے
ناقدین کا کہنا ہے کہ یہ مشق 2019 میں آسام میں کیے گئے متنازع شہریت رجسٹریشن جیسی ہے جس میں تقریباً 20 لاکھ افراد کو شہریت سے محروم کر دیا گیا تھا جن میں اکثریت مسلمانوں کی تھی۔ ان افراد کو ’غیر ملکی‘ قرار دیا گیا اور بہت سے لوگوں کو طویل عرصے تک حراستی مراکز میں بھی رکھا گیا۔