جرمنی نے غزہ میں استعمال ہونے والے ہتھیاروں کی فروخت روک دی

15:138/08/2025, الجمعة
جنرل8/08/2025, الجمعة
ویب ڈیسک
فائل فوٹو
فائل فوٹو

جرمن چانسلر میرس نے کہا کہ غزہ میں عام شہریوں کی حالتِ زار پر انہیں گہری تشویش ہے۔ جرمنی کے لیے یرغمالوں کی رہائی اور جنگ بندی کے لیے مذاکرات کا آغاز سب سے بڑی ترجیحات ہیں۔

جرمن چانسلر فریڈرش میرس نے کہا ہے کہ جرمنی کی حکومت تاحکمِ ثانی ایسا کوئی بھی فوجی ساز و سامان برآمد کی منظوری نہیں دے گی جسے غزہ میں استعمال کیا جا سکتا ہو۔

جرمن چانسلر نے یہ بیان جمعے کو اسرائیل کی جانب سے غزہ سٹی پر قبضے کی منظوری کے ردعمل میں دیا ہے۔

فریڈرش میرس نے کہا کہ اسرائیل کو حماس کو غیر مسلح کرنے اور اپنے یرغمالوں کی رہائی کے لیے اقدامات کرنے کا حق حاصل ہے۔ لیکن اسرائیلی کابینہ کی جانب سے غزہ میں فوجی کارروائی مزید سخت کرنے کا فیصلہ ان اہداف کے حصول کو مزید مشکل بنا رہا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ ان حالات میں جرمن حکومت ایسے کسی فوجی ساز و سامان کی برآمد کی منظوری نہیں دے گی جو غزہ کی پٹی میں استعمال ہو سکتا ہو۔

یرغمالوں کی رہائی اور جنگ بندی مذاکرات جرمنی کی اولین ترجیح

جرمن چانسلر میرس نے کہا کہ غزہ میں عام شہریوں کی حالتِ زار پر انہیں گہری تشویش ہے۔ جرمنی کے لیے یرغمالوں کی رہائی اور جنگ بندی کے لیے مذاکرات کا آغاز سب سے بڑی ترجیحات ہیں۔

ادھر اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو کی حکومت میں شامل دائیں بازو کے اتحادی غزہ پر مکمل قبضے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ لیکن اسرائیلی فوج نے خبردار کیا ہے کہ اس طرح کے اقدامات باقی یرغمالوں کی جان خطرے میں ڈال سکتے ہیں۔

یہ فیصلہ کیوں اہم ہے؟

جرمنی امریکہ کے بعد اسرائیل کو ہتھیار برآمد کرنے والا دوسرا بڑا ملک ہے۔ جرمن پارلیمنٹ کے مطابق سات اکتوبر 2023 سے 13 مئی 2025 کے درمیان حکومت نے اسرائیل کو 56 کروڑ ڈالر سے زیادہ مالیت کے فوجی ساز و سامان کی برآمدات کی منظوری دی تھی۔

اسٹاک ہوم انٹرنیشنل پیس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے مطابق اسرائیل نے 2020 سے 2024 کے دوران 66 فی صد ہتھیار امریکہ سے درآمد کیے تھے اور 33 فی صد ہتھیار جرمنی درآمد کیے گئے تھے۔

(یہ خبر رائٹرز سے لی گئی ہے)

##جرمنی
##اسرائیل
##غزہ